Maktaba Wahhabi

618 - 1201
جاتاہے۔ کیونکہ شیطان کی کوئی ایک معینہ راہ اور طریقہ نہیں کہ جس طریقہ کو اختیار کرنے والا اس کی چال سے محفوظ رہے۔ اس معاملہ کو اگر حرکت دی جاتی ہے تو لوگوں کے اس سلسلہ میں مختلف خیالات ہوں گے۔ ایک فریق تو آپ ہی لوگوں جیسی فکر رکھتا ہے اور ایک فریق آپ لوگوں کی فکر کے بالکل خلاف ہے، جب کہ تیسرا فریق دونوں کی حمایت سے کنارہ کش ہے اور اس کو انتظار ہے کہ جب تک حالات معمول پر نہ آجائیں، امن واستقرار کا ماحول نہ پیدا ہوجائے اور جس کے جو حقوق ہیں اس تک انھیں پہنچا نہ دیا جائے۔ لہٰذا آپ لوگ ہم سے ذرا خاموش رہیں اور دیکھو کہ کیا کچھ ہوتا ہے، اس کے بعد ہمارے پاس آؤ۔[1] لیکن اس حکیمانہ سیاست کو چند لوگوں نے نہیں سمجھا اور ایسا ہوتا ہے کہ لوگ غصہ کی حالت میں یا جذبات کی رو میں بہ کر معاملات کی حقیقت تک نہیں پہنچ پاتے کہ جس سے حالات کا صحیح اندازہ لگاسکیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے اندازے میں حالات الٹ نظرآتے ہیں، وہ ناممکن کو ممکن گمان کرتے ہیں۔ چنانچہ یہی ان کے لوگوں کے ساتھ ہوا، اور کہنے لگے: ’’جو ہم پر واجب ہے اسے ہم کرگزریں اور اس میں تاخیر نہ کریں۔‘‘[2]مطلب یہ تھا کہ قاتلینِ عثمان رضی اللہ عنہ پر حد قصاص کے نفاذ کا مطالبہ کیا جائے۔[3] جب علی رضی اللہ عنہ کو ان کی باتوں سے آگاہ کیا گیا تو آپ نے اپنے موقف کی تائید میں، ثبوت دینا مناسب سمجھا کہ ان ناگفتہ بہ حالات میں نہ ہم کچھ کرسکتے ہیں اور نہ دم ِ عثمان رضی اللہ عنہ کے مطالبین ہی، چنانچہ آپ نے اعلان کردیا کہ اس غلام سے ہم بری الذمہ ہیں جو اپنے مالک کے پاس واپس نہ چلا جائے۔ یہ سننا تھا کہ سبائیوں اور دیہاتیوں نے ایک دوسرے کو لڑائی پر ابھارنا شروع کردیا اور کہنے لگے: کل ہم لوگوں کے ساتھ بھی ایسے ہی کیا جائے گا اور پھر ہمارے پاس کوئی حجت نہ ہوگی۔[4] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا اعلان سن کر فتنہ سبائیت کے لیڈروں کے ذہن میں فوراً یہ بات آئی کہ خلیفہ انھیں ان کے جانباز معاونین سے بے دست و پا کرنا چاہتے ہیں، اس لیے انھوں نے آپ کے اعلان کی مخالفت کی اور پاس پڑوس کے بدؤوں کو مدینہ نہ چھوڑنے پر ابھارا۔ چنانچہ تمام فسادیوں نے ان لیڈروں کی بات مان لی اور مدینہ خالی نہ کیا، بیعت خلافت کے تیسرے دن علی رضی اللہ عنہ باہر نکلے اور اہل مدینہ کو مخاطب کرکے کہا: مختلف علاقوں سے آئے ہوئے بدؤوں کو یہاں سے نکال دو اور خود ان بدؤوں سے کہا: اے بدؤو! اپنے اپنے چشموں اور علاقوں میں واپس چلے جاؤ، لیکن سبائیوں نے آپ کی بات ماننے سے انکار کردیا اور بدوؤں نے بھی انھیں کی باتیں مانیں۔ اتنا کہہ کر علی رضی اللہ عنہ اپنے گھرکے اندر چلے گئے اور چند صحابہ کے ساتھ طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم بھی آپ کے پاس اندر گئے۔ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جاؤ دیکھو! اب خون کے بدلے کا تمہارا مطالبہ تمھارے حوالے ہے۔ وہ سب کہنے لگے: مفسدین اندھے ہوگئے ہیں، وہ کچھ سننے کو تیارنہیں۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! مجھے یقین ہے کہ آج کے بعد وہ اور بھی
Flag Counter