Maktaba Wahhabi

469 - 1201
5: رشوت سے پاک اور مفت فیصلہ: چونکہ انسانوں کو عدل و انصاف دلانا اسلامی ملک کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے، اس لیے اسلامی فقہ کا یہ فیصلہ ہے کہ حق بحق دار رسید میں کوئی چیز حائل نہ ہو اوراسی لیے مدعی و مدعی علیہ میں سے کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دی گئی کہ معاملہ کے تصفیہ کے لیے دونوں میں سے کوئی بھی قاضی، یا حاکمِ وقت کو مال یا رشوت دے، بلکہ اسلامی حکومت خود ذمہ دار ہوتی ہے کہ حاکم اور محکمہ کے تمام اخراجات کو برداشت کرے، یہی وجہ تھی کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ قاضی شریح کو مقررہ تنخواہ دیتے تھے جب آپ کو کوفہ کا قاضی مقرر کیا تو 500 درہم آپ کی تنخواہ بھی مقرر کی۔[1] 6: مقدمات میں وکالت کا آغاز: خلافت راشدہ کے دور میں مقدمات میں وکالت کی بنیاد پڑی، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ اپنے بھائی عقیل کو مقدمات میں اپنا وکیل بناتے تھے اور جب وہ عمر رسیدہ ہوگئے تو عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب کو عدالت میں اپنا وکیل بنایا۔ آپ فرماتے تھے: جو فیصلہ میرے وکیل کے حق میں سنایا جائے گا وہ میرے حق میں ہوگا اور جو فیصلہ میرے وکیل کے خلاف ہوگا وہ میرے خلاف ہوگا۔[2] قاضی کے فرائض فریقین کو مکمل عدل وانصاف دلانے کے لیے ضروری ہے کہ قاضی چند چیزوں کی رعایت کرے: 1۔ زیر سماعت مقدمہ کاہر پہلو سے جائزہ لینا: قاضی کے لیے ہرگز جائز نہیں کہ زیرسماعت مقدمہ کا ہر پہلو سے جائزہ لینے اور اطمینان بخش نتیجہ تک پہنچنے سے پہلے فیصلہ صادر کرنے میں جلدی کرجائے، اسی لیے علی رضی اللہ عنہ نے قاضی شریح سے کہا تھا کہ ’’تمھاری زبان اس وقت تک تمھاری غلام ہے، جب تک کوئی بات بولو نہیں اور جب کوئی بات بول دی تو تم اس کے غلام ہوگئے۔ لہٰذا چاک و چوبند رہو کہ تم کیا فیصلہ دے رہو؟ اور کس چیز کا فیصلہ دے رہو؟ اور کیسے فیصلہ کر رہے ہو؟[3] 2۔ فریقین کے درمیان مساوات: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک مہمان آیا اور چند دنوں قیام کیا، موقع ملنے پر اپنے فریق مخالف کے خلاف سفارش کی بات کہی تو آپ نے اس سے پوچھا: کیا تم مقدمہ لے کر آئے ہو؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: تم یہاں سے چلے جاؤ، ہمیں اس بات سے روکا گیا ہے کہ کسی ایک فریق کی ضیافت کریں، الا یہ کہ دونوں فریق ایک ساتھ آئیں۔[4]
Flag Counter