3۔ فریقین پر آواز بلند کرنے اور ڈانٹنے کی ممانعت: سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ابوالاسود الدولی کو قاضی مقرر کیا اور پھر معزول کردیا۔ ابوالاسود نے کہا: میں نے کوئی خیانت نہ کی اور نہ کوئی گناہ کیا، آپ نے مجھے کیوں معزول کردیا؟ آپ نے جواب دیا: میں نے دیکھا کہ فریقین پر تمھاری آواز بلند ہو رہی ہے۔[1] 4۔ کسی دباؤ اور نفسیاتی میلان سے گریز: مقدمات کی سماعت میں اگر قرابت داری یا مال یا بغض و عداوت یا کسی چیز کا دباؤ سامنے آئے تو قاضی کو اس سے قطعاً متاثر نہیں ہوناچاہیے، جعدہ بن ہبیرہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: اے امیر المومنین! اگر آپ کے پاس دو ایسے آدمی آئیں کہ ایک کے نزدیک آپ اس کی جان سے زیادہ محبوب ہوں اور دوسرا آپ سے اس قدر نفرت کرتا ہو کہ اگر موقع پائے تو ذبح کردے، کیا آپ ایسی صورت میں دوسرے کے خلاف اور پہلے کے حق میں فیصلہ دیں گے؟ راوی کا خود بیان ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے انھیں ڈانٹا اور فرمایا: یہ ایسا معاملہ ہے کہ اگر اس کا تعلق میری ذات سے ہوتا تو ممکن تھا ایسا کر گزرتا، لیکن یہاں معاملہ اللہ تعالیٰ کا ہے۔[2] 5۔ مشورہ طلبی: قاضی کے لیے ضروری ہے کہ ذی علم، اور اہل رائے سے مشورہ لیتا رہے، تاکہ حق کا دامن چھوٹنے نہ پائے۔ خود علی رضی اللہ عنہ اس شوریٰ کمیٹی کے ایک ممبر تھے جنھیں کسی بھی مشکل حالت آجانے پر خلفاء طلب کیا کرتے تھے، امام خصاف نے اپنی کتاب ’’ادب القاضی‘‘ میں لکھا ہے کہ جب عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس کوئی دو آدمی جھگڑا لے کر آتے تو آپ ایک سے کہتے: جاؤ علی کو بلا لاؤ اور دوسرے سے کہتے جاؤ طلحہ، زبیر اور فلاں فلاں اصحاب رسول کو بلا لاؤ، جب سب لوگ آجاتے تو فریقین سے فرماتے: اب تم دونوں اپنی بات رکھو، جب وہ اپنی بات کہہ کر فارغ ہوجاتے تو آپ صحابہ کی طرف متوجہ ہوتے اور ان سے پوچھتے کہ آپ لوگ کیا فرما رہے ہیں۔ اگر ان سب کی بات آپ کے فیصلہ کے موافق ہوتی تو آپ فیصلہ سنادیتے اور اس کے بعد چلے جاتے۔[3] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |