Maktaba Wahhabi

349 - 1201
ہم دیکھ رہے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ آفاقِ عظمت کے گرد اپنی خدا ترسی کا ہالہ ڈالے ہیں اور دنیا کو مخاطب کرکے کہہ رہے ہیں: سیم و زر! جاؤ کسی اور کو دھوکا دو۔ یہ آپ کی بے مثال حساس طبیعت اور بیدار مغزی کی دلیل ہے جو دنیا کو دھوکا دینے والے اور چت کردینے والے مدمقابل کی شکل میں ہمارے سامنے پیش کررہی ہے۔ آپ ان کلمات کے ذریعہ سے نفس کی سرکشی اور احساسات کی خودسری پر اپنے غلبہ کا اعلان کر رہے ہیں، اور فیصلہ اس عقل کے حوالہ کرتے ہیں جو عیش و مستی اور مصائب و بدبختی پر محیط دنیا کی محدود زندگی کو اس کی قد و قامت کے حساب سے مقام و مرتبہ دیتی ہے اور جنت کی بے انتہا نعمتوں اور جہنم کی خوف ناکیوں پر محیط آخرت کی دائمی زندگی کو اس کی قد وقامت کے حساب سے مقام و مرتبہ عطا کرتی ہے۔ آپ نے بیت المال میں اس امید سے دو رکعت نماز پڑھی تاکہ یہ ہمارے لیے بروز قیامت اس بات کی گواہ بن جائیں کہ میں نے اپنی حکومت میں انصاف کیا اور سیدھے راستے پر چلا، یقینا آپ کا یہ عمل آپ کو بلندی کی چوٹی پر پہنچاتا ہے اور بیت المال کو سجدہ گاہ بنانا اس بات کی طرف اشارہ دیتا ہے کہ آخرت، دنیا پر بھاری اور غالب ہے۔ نیز یہ کہ آپ اپنی زندگی میں مال کو جائز مقامات میں خرچ کرنے میں جو بلند کردار اپنایا تھا یہ اس کی تکمیل تھی[1] اللہ کی قسم! میں تمھارے مال سے کچھ نہیں لیتا: امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کے زہد و ورع کی ایک مثال یہ واقعہ ہے جسے ہارون بن عنترہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: میں خورنق[2] میں علی بن ابی طالب کے پاس گیا، وہ ایک پرانی چادر اوڑھے ہوئے سردی سے کانپ رہے تھے، میں نے کہا: امیرالمومنین! اللہ نے آپ، اورآپ کے خاندان کے لیے اس مال میں حصہ رکھا ہے اور آپ سردی سے کانپ رہے ہیں؟ فرمایا: میں تمھارے مال سے کچھ نہیں لیتا، میری یہی چادر ہے جسں کو میں اپنے گھر سے لے کر نکلا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ یہی چادر ہے جسے میں مدینہ سے لے کر نکلا تھا۔[3] آئیے! اس واقعہ پر ہم ٹھہریں! اور دل سے پوچھیں کہ آخر وہ کیا بات تھی جو امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ کو ناداروں کی سی زندگی گزارنے اور کڑاکے کی سردی جھیلنے پر مجبور کررہی تھی حالانکہ آپ اس وقت کا سب سے عمدہ اور گرم لباس خرید سکتے تھے؟ یقینا یہ حقیقی زہد ہی کا شعور تھا جو آپ کو متاع دنیا ملنے کے باوجود اس سے روک رہا تھا، اور ایسا کیوں نہ ہوتا جب کہ آپ درسگاہِ نبوی کے تربیت یافتہ تھے، حقیر و فانی دنیا سے بے زاری، دائمی اور اخروی نعمت طلبی کے ماحول میں پرورش پائی تھی۔ آپ کے مربی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے جنھوں نے مالدار ترین شخص کی طرح زندگی گزارنے کی استطاعت کے باوجود ناداروں کی سی زندگی کو ترجیح دی تھی۔[4] سامان بیچا میری رضا مندی سے اور نقدی لی اپنی رضا مندی سے: ابومطر، عمر بن عبداللہ جہنی سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: میں نے علی رضی اللہ عنہ کو ایک ازار اور چادر میں
Flag Counter