2۔ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا مرتبہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے نزدیک: سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اسلامی حکومت کے اہم اراکین میں شمار ہوتے تھے، قثم و قاثان[1] اور جنگ تستر[2]میں آپ اسلامی فوج کے سربراہ رہے، عہد فاروقی میں آپ بصری درس گاہ کے موسس تھے، آپ کا شمار کبار علماء صحابہ میں ہوتا تھا، آپ بصرہ گئے اور وہاں لوگوں کو دین سکھایا۔[3] آپ عمر رضی اللہ عنہ سے بہت متاثر تھے، دونوں کے درمیان خط و کتابت کا سلسلہ تھا، آئندہ صفحات میں ’’گورنران اور قاضی حضرات‘‘ کی بحث میں میں اس پر تفصیلی روشنی ڈالوں گا۔ آپ علم، عبادت، ورع، حیا، عزت نفس، پاک دامنی، دنیا سے بے زاری اور اسلام پر ثابت قدمی میں مشہور تھے، آپ کا شمار اس وقت کے بڑے بڑے علمائ، فقہاء اور مفتیان دین صحابہ میں ہوتا تھا۔ امام ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں آپ کو صحابہ کے طبقہ اولیٰ میں شمار کیا ہے، آپ عالم باعمل تھے، نیکوکار، قرآن کی تلاوت کرنے والے اور اس میں اس قدر خوش الحان کہ بس آپ پر انتہا ہے، علم کی بابرکت و نفع بخش وراثت چھوڑی، اہل بصرہ کو پڑھایا، اپنا بیشتر وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گزارتے تھے۔ آپ نے عمر، علی، ابی بن کعب اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم جیسے بڑے بڑے بزرگ صحابہ سے علم حاصل کیا، ان میں عمر رضی اللہ عنہ سے آپ خاص طور سے متاثر تھے، بصرہ پر ان کی طویل گورنری کی مدت میں عمر رضی اللہ عنہ انھیں نصیحتیں اور مشاورت لکھ لکھ کر بھیجتے رہتے تھے اور خود ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے سامنے کوئی پیچیدہ مسئلہ درپیش ہوتا تو عمر رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع کرتے، یہاں تک کہ امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو امت مسلمہ کے چار اہم قاضیوں میں شمار کیا ہے جو امت کے مشہور ترین قضاۃ ہیں۔چنانچہ فرماتے ہیں: عمر، علی، زید بن ثابت اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم قاضیانِ امت کے ستون تھے۔[4] آپ جب بھی مدینہ تشریف لاتے، سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی مجالس میں شرکت کے حریص ہوتے، بلکہ بیشتر وقت انھیں کے ساتھ گزارتے، چنانچہ ابوبکر بن موسیٰ سے روایت ہے کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ عشاء کی نماز کے بعد عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیسے آنا ہوا؟ انھوں نے فرمایا: آپ سے گفتگو کرنے کے لیے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس وقت! انھوں نے کہا: دینی مسائل پر گفتگو ہوگی، پھر عمر رضی اللہ عنہ بیٹھ گئے اور دونوں نے لمبی گفتگو کی۔ پھر ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا: اے امیر المومنین: نماز۔ آپ نے فرمایا: ہم نماز ہی میں تو ہیں۔[5] ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ جس طرح حصول علم کے حریص تھے اسی طرح علم کی نشر و اشاعت اور اسے لوگوں کو سکھانے کے بھی حریص تھے، اپنے خطبات میں لوگوں کو تعلیم و تعلّم پر ابھارتے تھے، چنانچہ ابوالمہلب کہتے ہیں کہ میں نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو ان کے منبر پر فرماتے ہوئے سنا: اللہ نے جسے کچھ بھی علم دیا ہے وہ اسے دوسروں کو |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |