بتائے اور جس کے بارے میں علم نہ ہو اس میں ہرگز نہ بولے، ورنہ وہ ریاکاروں اور تصنع کرنے والوں میں سے ہوجائے گا اور دین سے نکل جائے گا۔[1] سیّدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بصرہ کی مسجد کو اپنی علمی و دعوتی سرگرمیوں کا مرکز بنایا تھا اور علمی مجالس کے لیے اپنے وقت کا بیشتر حصہ خاص کردیا تھا، علاوہ ازیں کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے، جس میں آپ لوگوں کو تعلیم نہ دیتے رہے ہوں، جب نماز سے سلام پھیرتے لوگوں کی طرف منہ کرکے بیٹھ جاتے، انھیں پڑھانے لگتے، قرآن کی تلاوت کا طریقہ سکھاتے۔ ابن شوذب بیان کرتے ہیں کہ جب ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تو مقتدیوں کی طرف رخ کرکے ایک ایک آدمی کو قرآن پڑھاتے۔[2] آپ کو تمام صحابہ میں خوش الحانی اور عمدہ تلاوت میں شہرت حاصل تھی، جب وہ لوگ آپ کو قرآن پڑھتے ہوئے سنتے تو آپ کے پاس جمع ہوجاتے، جب آپ، عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھتے تو عمر رضی اللہ عنہ ان سے قرآن سنانے کا مطالبہ کرتے۔[3] بہرحال اللہ کی توفیق آپ کے شامل حال رہی کہ آپ نے لوگوں کو خوب خوب تعلیم دی اور جہاں بھی گئے قرآن کی تعلیم اور اس کی نشر و اشاعت میں بھرپور محنت کی، اپنی خوبصورت آواز اور مسحور کن تلاوت سے لوگوں کو اپنے پاس جمع کرلیا اور بصرہ کی مسجد میں آپ کے اردگرد طالبان علوم نبوت کی بھیڑ لگ گئی، آپ نے انھیں حلقوں اور درجات میں تقسیم کردیا، پھر ہر ایک کے پاس گھوم گھوم کر قرآن سنتے، سناتے اور عمدہ قراء ت کی تعلیم دیتے۔[4] پس قرآن کریم ہی آپ کی تمام تر مشغولیات کا محور تھا، سفر و حضر کے بیشتر اوقات کو آپ نے اسی کے لیے وقف کیا، انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ مجھے اشعری نے عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا تو عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: اشعری کیا کر رہے تھے؟ میں نے کہا: جب میں آیا ہوں تو وہ لوگوں کو قرآن سکھا رہے تھے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ کیا ہی زیرک و عقل مند آدمی ہیں۔[5]اِسے اُن سے نہ کہنا۔[6] صرف اتنا ہی نہیں بلکہ جہاد جیسے اہم ونازک موقع پر نکلتے ہوئے بھی آپ لوگوں کو قرآن اور دین کی باتیں سکھاتے رہتے تھے۔ حطّاب بن عبداللہ الرقاشی کہتے ہیں کہ ہم لوگ دجلہ کے ساحل پر علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، نماز کا وقت ہوگیا، مؤذن نے اذان دی، لوگ وضو کرنے لگے، آپ نے بھی وضو کیا، اور لوگوں کو نماز پڑھائی، پھر سب مختلف حلقوں میں بیٹھ گئے، جب عصر کا وقت ہوا تو پھر اذان دینے والے نے عصر کے لیے اذان دیا، پھر لوگو وضو کے لیے چل پڑے، آپ نے مؤذن کو حکم دیا کہ اعلان کردو جس کا وضو ٹوٹ گیا ہو اسی |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |