(3) تحکیم صفین کی لڑائی ختم ہوئی اور فریقین کے درمیان تحکیم قبول کرنے پر اتفاق ہوگیا، تحکیم کا مطلب یہ ہے کہ دونوں گروہ اپنی اپنی طرف سے ایک آدمی کو حَکَمْ (فیصل) منتخب کریں، پھر وہ دونوں حَکم جس چیز میں مسلمانوں کی بھلائی دیکھیں متفق ہو جائیں اور سب اس کو تسلیم کریں۔ چنانچہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو اور علی رضی اللہ عنہ نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو اپنا اپنا حکم منتخب کیا اور حسب اتفاق رمضان 38ھ میں دومۃ الجندل میں حکمین کی طرف سے ’’عہد نامہ تحکیم‘‘ تحریر میں لایا گیا۔ علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کی ایک جماعت نے آپ کے اس عمل کو کفر لازم کرنے والا گناہ قرار دیا اور کہا کہ انھیں اللہ کی بارگاہ میں اس عمل سے توبہ کرنا لازم ہے، پھر یہ لوگ آپ کے خلاف نکل پڑے، اسی لیے انھیں خوارج (نکل جانے والے) کہا جانے لگا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بھیجا، جنھوں نے ان سے اس مسئلہ پر مناظرہ اور گرما گرم مباحثہ کیا، پھر علی رضی اللہ عنہ نے خود ان سے مناظرہ کیا، پھر ان میں سے کچھ لوگوں نے آپ کی بات تسلیم کرلی اور کچھ لوگوں نے انکار کردیا، جس کی وجہ سے ان کے اور علی رضی اللہ عنہ کے درمیان لڑائیاں ہوئیں اور نتیجتاً آپ کی فوج کمزور ہوگئی اور آپ کے ساتھی درماندہ ہوگئے، اس طرح وہ لوگ برابر اپنی سازش اور ریشہ دوانیوں میں لگے رہے، یہاں تک کہ آپ کو اچانک قتل کردیا، جس کی تفصیل آئندہ صفحات میں مناسب مقام پر ان شاء اللہ بیان کی جائے گی۔ ’’تحکیم‘‘ کا معاملہ پوری خلافت راشدہ کی تاریخ میں سب سے خطرناک اور نازک ترین ہے، بہت سے قلم کار اور مؤلفین اس مقام پر بہک گئے ہیں اور اپنی معیوب تحریروں کو اپنی تالیف میں قلم بند کردیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے سامنے وہی ضعیف اور موضوع روایات رہیں جنھوں نے حیات صحابہ رضی اللہ عنہم کی کردار کشی کرنے میں کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ خاص طور سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو اپنی ہدف کا نشانہ بنایا ہے کہ وہ بیوقوف تھے، رائے کے کمزور تھے، ان کی بات میں خود اعتمادی نہ تھی، بڑے ہی بے پرواہ تھے، اسی لیے ’’تحکیم‘‘ کے معاملہ میں عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے انھیں دھوکہ دے دیا۔ دوسری طرف عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ تصویر پیش کیا گیا کہ وہ ایک دھوکہ باز اور چال باز آدمی تھے۔ یہ اور اس طرح کے دیگر مذموم اوصاف و عادات کو دشمنان اسلام نے ایسی دو عظیم ہستیوں کے سرتھوپنے کی کوشش کی ہے، جنھیں مسلمانوں نے ایک بڑے اختلاف کا فیصلہ کرنے کے لیے اپنا قائد تسلیم کیا تھا اور یہ اختلاف |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |