Maktaba Wahhabi

941 - 1201
اور پھر ایسی روایات ذکر کی ہیں جو روافض کے نزدیک شکوک و شبہات سے بالاتر ہیں۔ اسی لیے ان کا معتبر و مستند عالم مقداد الحلی متوفیٰ 821ھ لکھتا ہے کہ امامت کے استحقاق کے لیے ضروری ہے کہ جو شخص امام بن رہا ہو وہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے نامزد ہو، نہ کہ کسی بھی شخص پر متفق ہو کر اسے امام بنا لیا جائے۔[1] روافض کی نگاہ میں اس دور کے مستند عالم حسین آل کاشف الغطاء کہتا ہے: ’’نبوت کی طرح امامت بھی ایک منصبِ الٰہی ہے، تو جس طرح اللہ تعالیٰ نبوت و رسالت کے لیے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے منتخب کرتا ہے اور معجزات کے ذریعہ سے اس کی مدد کرتا ہے، اسی طرح امامت کے لیے بھی جسے چاہتا ہے منتخب کرتا ہے اور نبی کو اس کی نامزدگی کا حکم دیتا ہے اور اس سے کہہ دیتا ہے کہ اپنے بعد فلاں کو لوگوں کا امام بنا دینا۔‘‘[2] تو آپ دیکھ رہے ہیں کہ امامت اور نبوت میں ان کے نزدیک کوئی فرق نہیں ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات میں سے انبیاء کو منتخب کرتا ہے اسی طرح ائمہ کو منتخب کرتاہے۔ انھیں نامزد کرتا ہے اور مخلوق کو اس کی خبر کردیتا ہے۔ معجزات کے ذریعہ سے اس کی مدد فرماتا ہے اور حجت قائم کردیتا ہے، ائمہ پر کتب نازل کرتاہے ، ان کی طرف وحی کرتا ہے، وہ جو کچھ بھی کرتے یا کہتے ہیں سب اللہ کے حکم اور اس کی وحی کے مطابق کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں امامت و نبوت ایک ہی چیز ہے، جو امام ہے وہی نبی ہے، فقط نام کا فرق ہے۔ اسی لیے مجلسی کا کہنا ہے: ’’ان روایات سے نبی اور امام میں تفریق کرنا بہرحال اشکال سے خالی نہیں۔‘‘[3] پھر کہتا ہے: ’’ صرف خاتم الانبیاء کی رعایت ائمہ کرام کو نبوت سے متصف کرنے میں مانع ہے ورنہ ہماری عقلوں میں نبوت و امامت میں کوئی تفریق نہیں ہے۔‘‘[4] ’’امامت‘‘ کا مفہوم متعین کرنے کے لیے یہ ان کے اہم ترین اقوال ہیں، جب کہ ان باتوں کی تردید کے لیے بس ایک ہی چیز کافی ہے، وہ یہ کہ اس کے بارے میں ان کے پاس ابن سبا یہودی کے علاوہ کوئی اور سند نہیں ہے۔[5] روافض کے نزدیک عقیدۂ امامت کا مقام اور اس کے منکر کا حکم اہل سنت و جماعت کے نزدیک عقیدہ امامت اسلام کا کوئی ایسا بنیادی رکن نہیں ہے کہ جس سے ناواقفیت ایمان کے لیے خطرہ بن جائے، جیسا کہ بہت سارے علماء نے تحریر کیا ہے۔[6] جب کہ روافض شیعہ کے نزدیک اس
Flag Counter