Maktaba Wahhabi

678 - 1201
((إِنَّہُ کَانَ قَدْ أَرَادَ قَتْلَ صَاحِبِہِ۔)) [1] ’’اس نے اپنے ساتھی کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا۔‘‘ یہ سچ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ لڑنا برحق اور درست تھا اور جو لوگ ان کے ساتھ لڑتے ہوئے قتل کیے گئے وہ شہید ہوں گے، انھیں دوہرا اجر ملے گا، لیکن ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کو باغیوں سے قتال کی حالت پر محمول کیا، حالانکہ یہ حدیث غیرحالت جنگ کے لیے وارد تھی، پس ابو بکرہ رضی اللہ عنہ نے حدیث کا مفہوم ٹھیک ٹھیک سمجھا، لیکن اس کے موقع ومحل کا تعین نہ کرسکے۔ اس روایت سے ہمیں ایک بات اور بھی معلوم ہوتی ہے وہ یہ کہ علی رضی اللہ عنہ کو دوسروں سے معرکۂ آرائی کرنے میں دوسری کئی رکاوٹیں بھی حائل ہوئیں، انھیں میں سے ایک اس طرح کے بے محل فتووں کا وجود کہ جو شدت ورع کے نتیجہ میں سامنے آئے۔[2] بہرحال احنف نے جب یہ حدیث سنی تو علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دینے سے پیچھے ہٹ گئے اور جنگ جمل میں فریقین میں سے کسی کے ساتھ نہ رہے۔[3] ہم اور زیادہ قریب چلتے ہیں اور زبیر رضی اللہ عنہ کو دیکھتے ہیں، وہ جنگ کے ایک فریق تھے آپ حقیقت حال اس طرح بیان کرتے ہیں: یہ وہی فتنہ ہے جس کے بارے میں ہم آپس میں باتیں کیا کرتے تھے۔ آپ کے غلام نے جب یہ بات سنی تو کہا: آپ اسے فتنہ کہتے ہیں، پھر بھی اس میں قتال کررہے ہیں؟ آپ نے کہا: ہم دیکھنا چاہتے ہیں مگر دیکھ نہیں پاتے اس معاملہ کے علاوہ ہر معاملہ میں میں جانتا تھا کہ اپنا قدم کہاں رکھ رہا ہوں، لیکن میں نہیں سمجھ پارہا ہوں کہ آگے بڑھوں یا پیچھے ہٹوں۔[4] طلحہ رضی اللہ عنہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: ہم ایک تھے اور اپنے مخالفین پر متحد تھے، اچانک ہم دو فریق لوہے کے پہاڑ کی طرح آمنے سامنے آ گئے اور ایک دوسرے سے دو دو ہاتھ کرنے کو تیار ہوگئے۔ [5] دوسری طرف علی رضی اللہ عنہ کے ساتھی اس کے فتنہ ہونے کی تاکید کررہے ہیں۔ عمار رضی اللہ عنہ کوفہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے خروج کے بارے میں کہہ رہے تھے کہ وہ دنیا اور آخرت میں تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجۂ مطہرہ ہیں لیکن کیا کرو گے، تم ان کے ذریعہ سے آزمائے گئے ہو۔[6] 2۔معرکۂ جمل کے دو (2) رَن: سبائیوں نے دونوں لشکروں میں جنگ بھڑکانے، ہر فریق کو ایک دوسرے کے خلاف ابھارنے اور لڑانے کی کوششیں تیزتر کردی، پھر یہ معرکہ جسے معرکۂ جمل کہا جاتا ہے نہایت تیزی، گرمی اور سختی سے بھیانک انداز میں
Flag Counter