Maktaba Wahhabi

679 - 1201
بھڑک اٹھا، اسے معرکۂ جمل اس لیے کہا جاتاہے کہ جنگ کے دوسرے رن میں عائشہ رضی اللہ عنہا بصری فوج کے درمیان اس اونٹ پر سوار تھیں جسے یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ نے مکہ میں آپ کو بطور ہدیہ دیا تھا، انھوں نے اس اونٹ کو یمن سے خریدا تھا، عائشہ رضی اللہ عنہا اسی اونٹ پر سوار ہو کر مکہ سے بصرہ آئی تھیں، پھر دوران جنگ اسی پر سوار ہوئی تھیں، یہ معرکہ بروز جمعہ 16/جماد ی الثانیہ 36ھ میں بصرہ سے قریب ’’زابوقہ‘‘ میں پیش آیا تھا، علی رضی اللہ عنہ لڑائی دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوئے اور اپنے منادی سے اعلان کرو ایا کہ اے لوگو! لڑائی سے رک جاؤ، لیکن کسی نے آپ کی بات نہ سنی، ہر ایک اپنے مقابل سے لڑ نے میں مشغول تھا، اس معرکہ میں دورن پڑے۔ پہلا رن:…جنگ کے پہلے رن میں طلحہ اورزبیر رضی اللہ عنہما بصری فوج کی قیادت کررہے تھے، پہلے رن میں یہ لڑائی فجر سے لے کر دوپہر سے کچھ پہلے تک جاری رہی،[1] جس طرح طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما اپنی فوج سے کہہ رہے تھے کہ کسی بھاگنے والے کو قتل نہ کرو اور نہ کسی زخمی پر ہاتھ اٹھاؤ اور نہ معرکہ سے کسی بھاگنے والے کا پیچھا کرو، علی رضی اللہ عنہ بھی اپنی فوج میں یہی اعلان کروا رہے تھے۔[2] زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبداللہ کو ادائیگی قرض کی وصیت کرتے ہوئے کہا: آج یا تو ظالم قتل کیا جائے گا یا مظلوم اور میں اپنے بارے میں سوچ رہا ہوں کہ میں مظلوم ہی قتل کیا جاؤں گا مجھے سب سے زیادہ فکر اپنے قرض کی ہے۔[3] اسی دوران زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا: آپ اپنی فوج لے کر علی کی فوج میں گھس جائیں اور علی کو قتل کردیں، زبیر رضی اللہ عنہ نے اسے سختی سے ڈانٹا اور کہا: ہرگز نہیں، کوئی مومن قتل نہیں کیا جاسکتا، یا آپ نے یہ فرمایا کہ ایمان نے قتل کو قید کر رکھا ہے۔[4]گویا زبیر رضی اللہ عنہ کا مقصد یہ کبھی نہ تھا کہ علی رضی اللہ عنہ یا دمِ عثمان سے بری کسی دوسرے شخص کو قتل کریں۔ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے زبیر رضی اللہ عنہ کو بلایا، اور ان سے نہایت نرم لب ولہجہ میں محبت بھری گفتگو کی اور بیان کیا جاتا ہے کہ دوران گفتگو علی رضی اللہ عنہ نے زبیر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی یاد دلایا، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر سے کہا تھا: ((لَتُقَاتِلَنَّہٗ وَأَنْتَ لَہُ ظَالِمٌ‘))[5]تم ان سے ضرور قتال کرو گے اور تم ظالم ہوگے۔۔۔۔۔۔ اس حدیث کی سند صحیح نہیں ہے۔[6] ٭ بعض روایت میں معرکۂ جمل سے کچھ پہلے زبیر رضی اللہ عنہ کی واپسی کا سبب یہ بتاتی ہیں کہ آپ کو دوسرے لشکر یعنی علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں۔ عمار بن یاسر کی موجودگی کا علم ہوگیا، اور آپ اگرچہ حدیث نبوی ((تَقْتلُ عَمَّاراً
Flag Counter