Maktaba Wahhabi

940 - 1201
(3) عقیدۂ امامت، روافض کا سب سے اہم عقیدہ اثنا عشری رافضی شیعہ کے نزدیک ’’امامت‘‘ کا مسئلہ اسلام کا ایک عظیم رکن اور ایمان کی جڑ ہے۔ اس پر عقیدہ رکھے بغیر کسی انسان کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا اور نہ اس کا کوئی عمل قبول ہوگا، روافض شیعہ کے نزدیک اس وقت امامت کا جو مفہوم ہے اس کی بنیاد سب سے پہلے ابن سبا نے ڈالی، جو یہ بات عام کرنے لگا کہ امامت، نبی کی وصیت کا ایک حصہ ہے اور یہ وصی کے لیے خاص ہے۔ اگرکوئی غیر وصی اسے سنبھالتا ہے تو اس سے تبرّا کرنا اور اس کی تکفیر کرنا واجب ہے۔ شیعہ مذہب کی مراجع و مصادر کی کتب اس حقیقت کی معترف ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کی امامت کے وجوب کی بات کو سب سے پہلے ابن سبا نے عام کیا اورآپ کے دشمنوں سے اپنی براء ت ظاہر کیا، آپ کے مخالفین کو نمایاں کیا اوران کی تکفیر کی۔[1] کیونکہ وہ نسلاً یہودی تھا، اس کا عقیدہ تھا کہ یوشع بن نون موسیٰ علیہ السلام کے وصی تھے اور جب وہ اسلام لے آیا تو علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے بارے میں اس نے یہی عقیدہ فروغ دیا۔[2] بزرگان روافض کے نزدیک یہ بات معروف و مشہور ہے، چنانچہ شیعہ مفسر ابن بویہ القمی چوتھی صدی ہجری کے شیعی عقائد کو تحریر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’ان کا عقیدہ ہے کہ ہر نبی کا ایک وصی رہا ہے، جسے اس نے حکم الٰہی کی وصیت کی ہے۔‘‘[3] مزید لکھتا ہے کہ ’’اوصیاء کی تعدا ایک لاکھ چوبیس ہزار (000،24،1) رہی ہے۔‘‘[4] اور مجلسی نے لکھا ہے کہ ’’علی آخری وصی ہیں۔‘‘[5] شیعہ محدث ابوجعفر الکلینی اپنی کتاب ’’الکافی‘‘ میں چند ابواب اس طرح باندھتا ہے: ’’باب اس بیان میں کہ امامت کی نامزدگی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، جویکے بعد دیگرے منتقل ہوتی رہتی ہے۔‘‘[6] ’’باب اس بیان میں کہ اللہ اور اس کے رسول نے امامت کو ائمہ کے حق میں یکے بعد دیگر منتقل ہونے کے لیے نامزد کردیا ہے۔‘‘[7]
Flag Counter