Maktaba Wahhabi

270 - 1201
(3) سیّدناعلی رضی اللہ عنہ ، عہد عثمانی میں سیّدناعثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت پر علی رضی اللہ عنہ کی بیعت: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کی تدفین کے فوراً بعد شوریٰ کی منتخب کمیٹی اور اس کے اعلیٰ ممبران ام المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں جمع ہوئے اور بعض روایات کے مطابق ضحاک بن قیس کی بہن فاطمہ بنت قیس کے گھر جمع ہوئے تاکہ عمر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد مسلمانوں کی زندگی میں جو سب سے اہم معاملہ درپیش ہے، اسے حل کیاجائے تمام ممبران نے اپنی اپنی رائے نہایت وضاحت وتفصیل سے پیش کیں، اور اللہ کے فضل سے جس نتیجہ پر پہنچے عوام و خواص سب نے اسے خوشی خوشی تسلیم کیا[1] مجلس شوریٰ کی کارروائی کی نگرانی اور خلیفہ کے انتخاب میںعبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سب سے اہم کردار ادا کررہے تھے۔ خلافت کی ذمہ داریاں کون سنبھالے گا اور مسلمانوں کے معاملات کی تدبیر وسیاست کون کرے گا، اس کے لیے عبدالرحمن بن عوف نے منظم شورائیت کا واضح ترین نمونہ پیش کیا اور اپنی عظیم ذمہ داری کو بحسن و خوبی نبھانے کے لے نہایت صبر وضبط، جہد مسلسل اور حسن تدبیر سے کام لیا اور کامیاب ہوئے۔[2] یقینا جتنی جانفشانی اور مہارت سے آپ نے قافلۂ شوریٰ کی قیادت کی اس پر آپ قابل مبارکباد ہیں۔ [3] امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا افضل ترین عمل یہ رہا کہ آپ نے شوری کے وقت خود کو استحقاق خلافت سے الگ رکھا، اور اہل حل وعقد کے مشورہ کے مطابق خلیفہ کا انتخاب کیا۔اور امت مسلمہ کو عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت پر متحد کرنے کے لیے نہایت مستعدی اور ہوشمندی کا ثبوت دیا، اس سلسلہ میں اگر آپ جانبدار ہوتے تو منصب خلافت کو خود لے لیتے، یا اپنے عم زاد بھائی، اور ممبرن کمیٹی میں اپنے قریبی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو اس پر بیٹھا دیتے۔‘‘ [4] لیکن آپ نے ایسا نہ کیا اور بالآخرذو الحجہ 23ھ کے آخری دن مطابق 6/ نومبر 644ء کو سب نے بالاتفاق عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے انھیں اپنا خلیفہ منتخب کرلیا۔ صہیب رو می رضی اللہ عنہ انتخابِ خلیفہ تک مدینہ کے عارضی امام تھے۔ مجلس شوریٰ کے ممبران منبر رسول اللہ کے پاس جمع ہوئے، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ تشریف لائے، آپ کے سر پر وہ پگڑی تھی جسے دست رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی آپ کے سرپر با ندھا تھا۔ آپ نے موجود مہاجرین، انصار اور
Flag Counter