دیگر حالات سے مطلع کیا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اسے سن کر بہت خوش ہوئے مصالحت کی فضا سازگار ہوگئی، بعض تو اس سے بہت خوش ہوئے اور بعض نے مصالحت کو ناپسند کیا۔[1] صلح و اتفاق کي خوش خبري: جب قعقاع رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان کو اپنی گفتگو و حالات سے مطلع کیا توعلی رضی اللہ عنہ نے اپنے دو قاصد[2] عائشہ اور زبیر رضی اللہ عنہما اور ان کے ساتھیوں کے پاس روانہ کیا آپ قعقاع رضی اللہ عنہ کے اطلاع کی مزید توثیق چاہتے تھے، وہ دونوں قاصد آپ کے پاس یہ خبر لے کر لوٹے کہ قعقاع نے جو کچھ کہا ہے، ہوبہو وہی بات ہے، آپ آگے بڑھیں! چنانچہ علی رضی اللہ عنہ ’’ذوقار‘‘ سے آگے بڑھے اور فریق مقابل کے قریب پڑاؤ ڈالا، تمام قبائل اپنے اپنے قبیلہ والوں سے ملنے لگے، مضر والے مضر سے، ربیعہ والے ربیعہ سے اور یمن والے یمن والوں سے جا ملے، سب ایک دوسرے کے قریب قریب تھے، ایک دوسرے سے مل جل رہے تھے، انھیں مصالحت طے ہو جانے میں قطعاً کوئی شک نہ تھا، کبھی تیز اور پست آواز میں صلح ہی کی باتیں کرتے تھے۔[3] واضح رہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے جب ’’ذوقار‘’سے کوچ کا ارادہ کیا تھا تو اپنی خطرناک قرار داد کا اعلان کردیا: ’’کل میں یہاں سے کوچ کر رہا ہوں، (یعنی بصرہ) سن لو! کل میں یہاں سے کوچ کررہا ہوں، سن لو! ہمارے ساتھ کوئی ایسا شخص ہرگز نہ چلے جس نے عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت میں کسی قسم کی معاونت کی ہو، یا اس میں کسی قسم کا حصہ لیا ہو۔[4] جنگ بھڑک گئی 1۔جنگ بھڑکانے میں سبائیوں کا کردار: آپ کو معلوم ہے کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں وہ خوارج اور سرکش موجود تھے جنھوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کیا تھا، لیکن ان کے خلاف کارروائی ممکن نہ تھی کیونکہ فوج میں انھیں نامزذ کرنا مشکل تھا، یا ان کے قبیلہ کے مدد گار موجود تھے، یا ان کے خلاف کوئی واضح دلیل نہ تھی، یا وہ منافق تھے اور نفاق کو پوشیدہ رکھے ہوئے تھے۔[5]یہ لوگ ابن سبا کے پیروکار تھے، ان لوگوں نے جب علی رضی اللہ عنہ کا یہ اعلان سنا تو اشتعال انگیزی اور فتنہ کی آگ بھڑکانے کی کوشش میں لگ گئے، تاکہ قصاص کی تلوار سے محفوظ ہوجائیں۔[6] چنانچہ جب دونوں فوجوں نے قریب قریب پڑاؤ ڈال دیا اور سب اپنی جگہوں پر مطمئن ہوگئے، تو ایک طرف سے علی اور دوسری طرف سے طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم نکل کر باہر آئے، ایک دوسرے سے ملے اور اپنے نزاعی مسئلہ کے بارے میں گفتگو کی، بالآخر حالات کو سدھرتے دیکھ کر اس نتیجہ پر پہنچے کہ صلح اور جنگ بندی سے بہتر کوئی چیز |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |