Maktaba Wahhabi

673 - 1201
نہیں ہے، پھر اسی پر وہ سب الگ الگ ہوگئے، علی رضی اللہ عنہ اپنی فوج میں لوٹ آئے اور طلحہ و زبیر اپنی فوج میں لوٹ گئے، طلحہ اور زبیر نے اپنے سرداروں کو بلالیا اور علی رضی اللہ عنہ نے قاتلین عثمان کو چھوڑ کر اپنے سرداروں کو بلالیا، شام ہوگئی اور صلح و عافیت کی نیت سے سب نے رات گزار ی، دونوں افواج کے افراد ایک دوسرے کے قریب قریب تھے، ایک دوسرے سے ملتے تھے اور صرف صلح کی نیت سے رات گزار رہے تھے۔ لیکن فتنہ کی آگ لگانے والوں نے آج جس طرح رات گزاری تھی شاید ایسی منحوس اور بری رات انھوں نے کبھی نہ گزاری رہی ہو، انھیں اپنی بربادی کا غم ستار ہا تھا، پوری رات مشورہ کرتے رہے، ان میں سے کسی نے کہا: طلحہ اور زبیر کے ارادوں سے تو ہم خوب واقف ہیں، لیکن علی کے ارادوں سے آج تک واقف نہ ہوسکے۔یہاں تک کہ وہ دن آگیا جب آپ نے تمام لوگوں کو کل کے دن کوچ کرنے کو کہا اور یہ شرط لگادی کہ جس نے کسی بھی طرح عثمان کے قتل میں شرکت کی ہے، وہ ہمارے ساتھ نہ چلے، اللہ کی قسم! مجھے لگ رہاہے کہ ان سب لوگوں کی ہمارے بارے میں ایک ہی رائے ہے، اگر انھوں نے علی سے کسی بات پر صلح کرلی تو وہ صلح ہمارے خون پر ہوگی۔[1] ان کے مشیر خاص ابن السوداء یعنی عبداللہ بن سبا نے کہا: اے لوگو! تمھاری بہتری اس میں ہے کہ تم ان لوگوں کے ساتھ ملے جلے رہو اور ان کے ساتھ مل کر کام کرو اور جب کل دونوں فریق آپس میں ملیں تو جنگ چھیڑ دو، اور انھیں سوچنے تک کا موقع نہ دو اور جب تم علی کے ساتھ ہوگے تو انھیں کوئی شخص ایسا نظر نہ آئے گا جس کے ذریعہ سے جنگ کو بند کراسکیں، اس طرح اللہ تعالیٰ علی، طلحہ، زبیر اور ان لوگوں کو جو صلح کے خواہاں ہیں اور تمھاری منشاء کے خلاف کام کرنا چاہتے ہیں، انھیں ایک مصیبت میں مبتلا کردے گا، اس رائے پر سب متفق ہوجاؤ اور اسی کی روشنی میں منتشر ہو کر اس طرح کاراوائی کرو کہ کسی کو علم تک نہ۔[2] پھر وہ سب اس بات پر متفق ہوگئے کہ انتہائی رازداری سے جنگ کی آگ لگا دی جائے، چنانچہ غلس کے وقت جب کہ تاریکی کچھ زیادہ ہی تھی یہ لوگ اس طرح نکلے کہ ان کے پڑوس والے تک کو خبر نہ ہوئی۔ جس کا تعلق مضروالوں سے تھا وہ مضر والوں میں اور جس کا ربیعہ سے تھا وہ ربیعہ میں اور جس کا یمن سے وہ یمن والوں میں چلا گیا اور سب نے اپنی اپنی جگہوں پر تلواریں چلادیں، اہل بصرہ غضب ناک ہوگئے، بلکہ تمام لوگ اپنے سامنے کسی کو بھی حملہ آور کو دیکھ کر اس سے بھڑ جاتے، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما سامنے آئے، میمنہ کوتیار کیا، اس میں قبیلہ ربیعہ کے لوگ تھے۔ عبدالرحمن بن حارث بن ہشام ان کی قیادت کررہے تھے اور میسرہ والوں کو تیار کیا، عبدالرحمن بن عتاب بن اسید اس کی قیادت کررہے تھے اور پھر خود وہ دونوں قلب میں جم گئے اور کہنے لگے: یہ کیا ہوگیا؟ لوگوں نے کہا کہ اہل کوفہ نے رات میں ہم پر حملہ کردیا، وہ دونوں کہنے لگے: ہم نے جان لیا کہ علی رضی اللہ عنہ قتل و خون ریزی، اور محرمات الہٰیہ کا تقدس پامال کرنے سے باز نہیں آئیں گے، وہ ہماری بات ہرگز نہیں سنیں گے، پھر وہ دونوں اہل بصرہ کو لے کر پیچھے ہٹ گئے اور پھر بصرہ والوں کو مقابل فوج نے دھکیل کر ان کے معسکر تک پہنچادیا۔[3]
Flag Counter