Maktaba Wahhabi

73 - 1201
تھے، بلکہ اس کو عار، شرم اور بے حیائی کی بات سمجھتے تھے، قرآن نے ان کے اس طرز معاشرت کو بہ نظر استحسان دیکھا اور اس کو شریعت قرار دیا۔ قریش کی امتیازی شان میں اضافہ کرنے والی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ یہ لوگ جس قبیلہ کی لڑکی سے چاہتے بلا شرط شادی کرسکتے تھے، مگر کسی کو اپنی لڑکی دیتے ہوئے یہ شرط ضرور لگاتے کہ جس سے شادی کی جارہی ہے وہ ان کے مذہب پر سختی کے ساتھ کاربند ہو۔ وہ اپنے عقیدہ، خاندانی روایات اور سماجی آن بان کے بموجب ایسے شخص سے رشتہ کرنا ناجائز اور اپنی شان کے منافی سمجھتے تھے، جو عقیدہ میں ان کا ہم مشرب تابع نہ ہو۔[1] بنوہاشم: قریش کے قبیلہ میں بنوہاشم کی حیثیت ایک گل سرسبز کی تھی، تاریخ کی کتب میں ان کے بارے میں کتب تاریخ نے جو اقوال و کارنامے اور مواد محفوظ کیے ہیں وہ حقیقت کے مقابلہ میں بہت کم ہیں۔ لیکن جو کچھ ملتا ہے اسی کو سامنے رکھا جائے تو اس سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ قریش کی یہ شاخ اپنے انسانی شعور اور اعتدال پسندی میں امتیازی شان رکھتی تھی، دینی و دماغی طور سے اس کو کسی قدر فوقیت حاصل تھی، بیت اللہ (خانہ کعبہ) کا جو اللہ تعالیٰ کے یہاں مقام و مرتبہ تھا اس پر پختہ ایمان رکھتی تھی، ظلم و زیادتی کو گناہ سمجھنے کا شعور ختم نہیں ہوا تھا، ہٹ دھرمی اور ضد اس کا شعار نہیں تھا، ہمت بلند تھی، کمزوروں اور ضعیفوں پر رحم و شفقت کا برتاؤ کرتی، سخاوت و شجاعت اس کا مزاج تھا، غرض اخلاق و شرافت، سیر چشمی، حمیت اور جوشِ عمل کی وہ خصوصیات جن کے لیے عربی میں ایک جامع لفظ ’’فروسیت‘‘ کا ہے بنوہاشم میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ ان کے اخلاق و کردار رسول اللہ کے آباء و اجداد کے شایان شان تھے اور اسلام نے جن اخلاق عالیہ کی دعوت دی ہے ان سے ان کے اخلاق مناسبت رکھتے تھے، البتہ یہ ضرور ہے کہ ایک زمانہ سے وہ اپنی قوم و ہم وطن قبائل کے عقائد جاہلیت اور غیر اللہ کی عبادت میں ان کے شریک ہوگئے تھے۔[2] ان کو یہ مقام ان کی عظیم قربانیوں اور جود و سخا، نیز انسانی خدمت کے صلہ میں ملا تھا۔ عبدالمطلب بن ہاشم: عبدالمطلب بن ہاشم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور علی رضی اللہ عنہ کے دادا تھے، عبدالمطلب بن ہاشم اپنے چچا ’’مطلب‘‘ کے بعدحجاج کے لیے پینے کا پانی فراہم کرنے، اور ان کی مہمان نوازی کرنے کے منصب پر سرفراز ہوئے، انھوں نے اپنے عہد میں اپنے آباء و اجداد کے نقش قدم پر لوگوں کی یہ خدمات بڑی خوبی اور وسعت سے انجام دیں، جس سے لوگوں کے درمیان ان کا رتبہ بلند ہوا، اوران کو وہ عزت و توقیر، عوام کی عقیدت اورخواص کا احترام حاصل ہوا جو ان کے پیش رو بزرگوں کو بھی حاصل نہیں ہوا تھا۔[3]
Flag Counter