کرنے کی نیت سے آگئے تھے حتی کہ آپ کے برآمدہ تک پہنچ گئے تھے، ان کے ساتھ ایک راہبر بھی تھا۔ لیکن اللہ کا کرم ہوا کہ اس نے آپ کے قیام گاہ کی حفاظت کرنے والی مسلمانوں کی جماعت کے ذریعہ سے آپ رضی اللہ عنہا کا دفاع کیا، وہ لوگ گرفت کی چکی میں آگئے اور مسلمانوں نے انھیں گھیر گھیر کر قتل کیا۔ [1] اب زبیر اور طلحہ رضی اللہ عنہما اس پوزیشن میں تھے کہ بصرہ پر قابض ہوجائیں۔ چونکہ انھیں گھر سے نکلے کئی ہفتے ہوگئے تھے اور کسی کے یہاں مہمان کی حیثیت سے بھی نہ تھے اس لیے اب خوراک اور غذا کی ضرورت محسوس ہورہی تھی۔چنانچہ زبیر رضی اللہ عنہ کی فوج نے بصرہ کی امارت گاہ اور پھر وہاں سے بیت المال کا رخ کیا، تاکہ اپنے ساتھیوں کو غذا فراہم کرسکیں اور عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کے لیے راہ ہموار کردی اور وہ علی رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوگئے۔[2] اس طرح بالآخر طلحہ، زبیر، اور ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہم کا بصرہ پر مکمل طور سے قبضہ ہوگیا۔ اس جنگی کارروائی میں مزاحمت کاروں کی ایک بڑی تعداد، جن کا اندازہ ستر (70) آدمیوں تک لگایا گیا ہے کو قتل کیا گیا، ان میں بصرہ کے انقلابیوں کے سرغنہ حکم بن جبلہ کا قتل سرفہرست ہے جو کہ اوّل دن سے آمادۂ جنگ تھا اور قدم قدم پر لڑائی کی آگ لگانے کے لیے کوشاں تھا۔اس فوجی کارروائی کے امیر زبیر رضی اللہ عنہ تھے، انھی کی امارت پر سب لوگوں نے بیعت کی تھی۔ [3] دیگر شہروں کے نام عائشہ رضی اللہ عنہا کے خطوط: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اہل بصرہ کے ساتھ اپنی لڑائی میں حق کی نوعیت کو واضح کردینا چاہتی تھیں، اس لیے شام، کوفہ، یمامہ اور اہل مدینہ کے نام مکتوبات روانہ کیے اور انھیں اہل بصرہ پر کارروائی اور ان کے انجام کی اطلاع دی۔ ان مکتوبات میں اہل شام کے نام آپ نے جو تحریر لکھی تھی اس کا مضمون یہ تھا: ’’ہم جنگ روکنے کے لیے نکلے تھے۔ اور ہمارا مقصد یہ تھا کہ اللہ کے حکم یعنی حد شرعی کو تمام لوگوں میں خواہ وہ شریف ہوں یا رذیل، زیادہ ہوں یا کم، نافذ کر کے اللہ کی کتاب کی بالا دستی قائم کریں، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ہی ہمیں اس سے پھیردے۔چنانچہ بصرہ کے شریف الطبع اور نیک دل لوگوں نے ہم سے بیعت کر لی اور شرپسندوں اور فسادیوں نے ہماری مخالفت کی، انھوں نے ہمیں ہتھیاروں سے واپس کیا، اور جو کچھ کہا سو کہا، پر ایک بات یہ بھی کہی کہ اگر ام المومنین نے انھیں حق کاراستہ دکھانا چاہا، اور لوگوں کو اس کے لیے بہکایا توہم انھیں ’’گروی‘‘ رکھ لیں گے۔ پس اللہ نے انھیں یکے بعد دیگرے مسلمانوں کی طرف سے مہلت دی، اور بالآخر جب ان کے سامنے کوئی حجت اور عذر باقی نہ رہا تو یہی قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ مرنے مارنے کے لیے جنگ میں کود پڑے۔ اور نتیجہ یہ ہوا کہ حرقوص بن زھیر کے علاوہ ان میں کوئی نہ بچ سکا، اللہ اس سے بھی قصاص لے کر رہے گا، تمھارے بارے میں ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ جس طرح ہم اٹھے ہیں اسی طرح تم بھی کرنا تاکہ ہم سب ایک ہی مقصدپر جان دیکر اللہ سے جاملیں۔ ہم نے اپنی حد تک کوشش کی اور اپنی |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |