Maktaba Wahhabi

1193 - 1201
کا اثر یہ ہوگا کہ آپ کی اولاد کا سلسلہ منقطع ہوجائے گا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: گرم لوہا لگوانے کی تو مجھ میں تاب نہیں، باقی رہا اولاد کاسلسلہ منقطع ہوجانے کا سوال تو میرے لیے یزید اور عبداللہ کافی ہیں۔ چنانچہ طبیب نے انھیں دواپلائی اور وہ صحت مند ہوگئے بعدازاں ان کے کوئی اولاد نہ ہوئی، اس واقعہ کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ نے مسجد میں مقصورہ بنانے کا حکم دیا اور پہرہ دار اور پولیس مقرر کیے جو نماز پڑھاتے وقت ان کی نگرانی کرتے رہتے تھے۔ عمرو بن بکر بھی اسی رات عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی تاک میں بیٹھ گیا۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیمار تھے اس لیے نماز کے لیے نہ آسکے اور اپنی جگہ خارجہ بن حذافہ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا، خارجہ آپ کے محافظ تھے، بنوعامر بن لویٔ سے آپ کا تعلق تھا، وہ نماز پڑھانے کے لیے نکلے، عمرو بن بکر نے ان پر حملہ کرکے انھیں قتل کردیا، وہ نہیں جان سکا کہ عمرو بن عاص کی جگہ خارجہ بن حذافہ نماز پڑھانے کے لیے آئے ہیں۔ لوگوں نے جھٹ اسے پکڑ لیا اور عمرو بن عاص کی خدمت میں لے گئے۔ عمرو بن بکر نے لوگوں سے پوچھا یہ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ عمرو بن عاص ہیں، اس نے کہا: تب میں نے کسے قتل کرڈالا؟ لوگوں نے کہا: خارجہ بن حذافہ کو۔ اس پر عمرو بن عاص سے مخاطب ہوا اور کہنے لگا: اے فاسق! میں نے تو اپنے خیال میں تم پر حملہ کیا تھا۔ عمرو بن عاص نے کہا: تو نے میرے قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا اور اللہ کی مشیت تھی کہ میری جگہ خارجہ مارے جائیں، پھر آپ نے اسے آگے کیا اور قتل کردیا۔[1] 7۔ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی مدت خلافت، شہادت کے وقت آپ کی عمر اور قبر کی جگہ: مدت خلافت: خلیفہ بن خیاط کے بقول: آپ کی مدت خلافت چار سال نو مہینہ چھ دن اور بقول بعض تین دن یا چودہ دن ہے۔[2] چار سال نو ماہ اور تین دن والی روایت زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتی ہے، اس لیے کہ 18/ذی الحجہ 35ھ کو آپ نے بیعت خلافت لی اور 21/رمضان 40ھ کو آپ نے شہادت پائی۔ [3] امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کو حسن، حسین اور عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہم نے غسل دلایا اور تین کپڑوں میں آپ کی تکفین ہوئی، اس میں قمیص نہ تھی۔[4] حسن رضی اللہ عنہ نے چار تکبیرات کے ساتھ نماز جنازہ پڑھائی۔[5] اورایک بلا سند روایت کے مطابق نو تکبیرات کہی گئیں۔ [6] قبر کي جگہ: آپ کی قبر کہاں ہے، اس سلسلہ میں مختلف اقوال ہیں، علامہ ابن الجوزی نے اس سلسلہ میں متعدد روایات کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ اللہ ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ ان میں کون سا قول زیادہ صحیح ہے۔[7]
Flag Counter