Maktaba Wahhabi

736 - 1201
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔[1] اور غزوۂ بدر میں کیوں پیچھے تھے اس لے کہ اس وقت آپ ایک ذمہ داری پر مامور تھے، جیسا کہ یہ بات پہلے گزر چکی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے بارے میں فرمایا: ((مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَنْظُرَ إِلَی شَہِیْدٍ یَمْشِيْ عَلَی وَجْہِ الْأَرْضِ فَلْیَنْظُرْ إِلَی طَلْحَۃَ بْنِ عُبَیْدِ اللّٰہِ۔))[2] ’’جو کسی شہید کو زمین پر چلتا ہوا دیکھنا چاہیے وہ طلحہ بن عبید اللہ کو دیکھ لے۔‘‘ 5۔اللہ سے اپنے معاہدہ کو نبھایا: سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کے دونوں بیٹے موسیٰ اور عیسیٰ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا بیان ہے کہ ایک اعرابی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ (الاحزاب:23) ان میں اپنا عہد پورا کرنے والا کون ہے؟ صحابہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنے کی جرأت نہیں کرتے تھے، وہ آپ کی توقیر و احترام کرتے تھے، ساتھ ہی آپ سے ڈرتے بھی تھے، بہرحال اعرابی نے اپنا سوال پھر دہرایا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہ دیا، اس اعرابی نے پھر وہی سوال دہرایا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر کوئی جواب نہ دیا، تب تک میں مسجد کے دروازہ سے داخل ہوا تھا، میں سبز رنگ کا لباس پہنے ہوئے تھا، جب آپ نے مجھ کو دیکھا تو کہنے لگے: ((أَیْنَ السَّائِلُ عَمَّنْ قَضَی نَحْبَہُ۔)) اپنا عہد پورا کرنے والے کے بارے میں پوچھنے والا کہاں گیا، اعرابی نے کہا: میں حاضر ہوں، اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((ہَذَا مِمَّنْ قَضَی نَحْبَہُ۔)) یہ ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے اللہ کے ساتھ اپنا عہد پورا کیا۔[3] 6۔اپنے بھائیوں کی طرف سے مدافعت اوران کے ساتھ حسن ظن کی تلقین: مالک بن ابوعامر سے روایت ہے کہ طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی آیا، اور کہنے لگا کہ اس یمنی یعنی ابوہریرہ ( رضی اللہ عنہ ) کے بارے میں تم کیا سوچتے ہو؟ کیا وہ حدیث رسول کے بارے میں اپ سے زیادہ جاننے والے ہیں، اس سے ہم ایسی ایسی احادیث سنتے ہیں جسے آپ سے نہیں سنتے۔ آپ نے فرمایا: اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ کچھ سنا ہے جو ہم نے نہیں سنا۔ میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ ہم سب اہل خانہ تھے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صبح و شام کو آتے تھے، جب کہ وہ یعنی ابوہریرہ مسکین آدمی تھے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ پر بیٹھے رہتے تھے تو یقینا وہ ان احادیث کو ضرور سنیں گے جنھیں ہم نے نہیں سنا ہوگا،کیا تمھیں کسی ایسے آدمی میں کوئی بھلائی نظر آسکتی ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسی باتیں منسوب کرے جنھیں آپ نے نہیں کیا ہے؟[4]
Flag Counter