Maktaba Wahhabi

1188 - 1201
کے بعد طبیب نے کہا: اب آپ اپنا کام کرڈالیے، آپ جانبر نہ ہوپائیں گے۔[1] عبداللہ کا بیان ہے کہ جندب بن عبداللہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور کہا کہ اے امیر المومنین! اگر ہم آپ سے محروم کردیے گئے اللہ کرے ایسا نہ ہو تو کیا ہم حسن سے بیعت کرلیں؟ تو آپ نے فرمایا: نہ میں تمھیں حکم دیتا ہوں اور نہ روکتا ہوں، آپ لوگ زیادہ جانتے ہیں۔[2] 5۔ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی وصیت: اس کے بعد آپ نے اپنے دونوں بیٹوں حسن اور حسین کو بلایا اور انھیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: میں تمھیں چندباتوں کی وصیت کرتا ہوں، اللہ سے تقویٰ اختیار کرنا، دنیا سے کبھی دل نہ لگانا اگرچہ وہ تمھارے پیچھے لگے، کسی ایسی چیز کے لیے غم نہ کرنا جو تمھیں نہ ملنے والی ہو، حق با ت کہنا، یتیم پر رحم کرنا، بے کس کی مدد کرنا، اپنی آخرت کو سنوارنے کی کوشش کرنا، ظالم کو اس کے ظلم سے روکنا اور مظلوم کی مدد کرنا۔ اللہ کی کتاب پر عمل کرنا، اس کے احکامات کی تعمیل کے سلسلہ میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہ کرنا، اس کے بعد اپنے تیسرے بیٹے محمد بن الحنفیہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: میں نے تمھارے دونوں بھائیوں کو جو نصیحتیں کی ہیں کیا تم نے بھی ان کو اچھی طرح گوش گزار کرلیا؟[3] انھوں نے کہا: جی ہاں۔ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم اپنے بڑے بھائیوں کی توقیر و تعظیم کرنا، کیونکہ ان کا تم پر بہت بڑا حق ہے، جو کچھ وہ کہیں اس پر عمل کرنا اور ان کے کسی حکم کی بجاآوری میں دیر نہ کرنا۔ اس کے بعد پھر حسن و حسین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: میں اس (محمد بن الحنفیہ) کے بارے میں تم دونوں کو خیرخواہی کرنے کی نصیحت کرتا ہوں، کیونکہ وہ بھی تمھارے باپ کی اولاد ہے اور تم لوگوں کو معلوم ہے کہ اس کا باپ اس سے کتنی محبت کرتا تھا، پھر حسن رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے میرے بیٹے میں تمھیں اللہ سے تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں، اوریہ کہ نماز کے وقت پر نماز پڑھنا، زکوٰۃ کے وقت پر زکوٰۃ دینا اور اچھی طرح وضو کرنا، کیونکہ بغیر پاکی (وضو) کے نماز صحیح نہیں اور زکوٰۃ نہ دینے والے کی نماز قبول نہیں ہوتی، نیز وصیت کرتا ہوں کہ دوسروں کی لغزشوں سے درگزر کرنا، غصہ کو پی جانا، صلہ رحمی کرنا، بردباری سے کام لینا، دین میں بصیرت حاصل کرنا، کسی معاملہ کی اچھی طرح تحقیق کرلینا، قرآن کو لازم پکڑنا، پڑوسی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا، بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا، فواحش اور بدکاریوں سے بچتے رہنا۔[4] جب موت سے بالکل قریب ہوئے تو یہ وصیت فرمائی: ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ علی بن ابی طالب کی وصیت ہے ، مجھے اس بات کا اقرار ہے کہ معبود برحق صرف اللہ ہے، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، اس نے انھیں ہدایت اور دین حق کے ساتھ
Flag Counter