Maktaba Wahhabi

253 - 263
پہلی دلیل:’’وَمَا نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْنَاهُمُ اللّٰهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ‘‘[1]حالانکہ یہ دلیل بنتی نہیں ہے کیونکہ اس میں تو بیان اس بات کا ہے ہجرت مدینہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے وافر مال دیا اور انہیں غنی کر دیا تو انہیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اس غنا اور تونگری کا ظاہری سبب اللہ کے رسول تھے اس لیے ساتھ ان کا ذکر فرمایا ہے اور اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ اللہ کے رسول انہیں غنی کر سکتے ہیں کیونکہ اللہ رب العزت نے اپنے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے بعد ’’من فضلہ‘‘ کی قید لگائی ہے اور اس میں ضمیر واحد استعمال کی گئی ہے نا کہ تثنیہ یا جمع کی کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی مراد لیتے۔ لہٰذا صرف اللہ رب العزت ہی غنا اور تونگری سے نوازنے والے ہیں۔ دوسری دلیل:’’وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوا مَا آتَاهُمُ اللّٰهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُوا حَسْبُنَا اللّٰهُ سَيُؤْتِينَا اللّٰهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ‘‘[2] اس آیت میں جو اللہ اور اس کے رسول نے اپنے فضل سے دینا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تو عطا کرنے والے اور دینے والے ہیں اور اللہ کی طرف سے یا اس کی رحمت سے جو کچھ حاصل ہوتا ہے اس پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگے تقسیم کرتے ہیں اور یہ بات احادیث سے ثابت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’ نہ میں تمہیں کوئی چیزدیتا ہوں ‘ نہ تم سے کسی چیز کو روکتا ہوں۔ میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں۔ جہاں جہاں کا مجھے حکم ہوتا ہے بس وہیں رکھ دیتا ہوں۔‘‘[3] تیسری دلیل:’’وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ‘‘[4] اس آیت میں بھی اللہ رب العزت کے انعام کرنے سے مراد یہ ہے کہ اللہ نے انعام کیا یا احسان وہ یہ کہ ہدایت دی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انعام کرنے سے مراد زید بن حارثہ کی آزادی کا احسان یا انعام ہے۔اس لیے غلط تفسیر کرنا یا آیت میں بنا غور وخوض کیے کوئی معنی بیان کرنا درست نہیں ہے۔
Flag Counter