Maktaba Wahhabi

253 - 1201
رسوا کردیا اور یہ دیکھئے اس کے ہوس کے اثرات ہیں، عمر رضی اللہ عنہ نے دوسری عورتوں سے دیکھنے کو کہا، تو انھوں نے کہا: ہاں، اس کے جسم اور کپڑے میں منی کے آثار پائے جاتے ہیں، عمر رضی اللہ عنہ نے نوجوان کو سزا دینے کا ارادہ کیا، وہ نوجوان فریاد کرنے لگا کہ اے امیر المومنین! میرے معاملہ کی حقیقت معلوم کرلیجئے، اللہ کی قسم! میں نے کبھی بھی ایسی بدکاری نہیں کی ہے اور نہ ہی اس کا ارادہ کیا ہے، دراصل یہ مجھے پھسلارہی تھی اور ناکامی کی صورت میں یہ ڈھونگ رچایا گیا ہے۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ سے مشورہ لیا کہ اے ابوالحسن! ان دونوں کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ علی رضی اللہ عنہ نے عورت کے کپڑے پر لگی ہوئی سفیدی پر نگاہ ڈالی پھر خوب گرم کھولتا ہوا پانی منگایا اور اسے کپڑے پر ڈال دیا اس سفیدی میں جماؤ آگیا، آپ نے اسے ہاتھ میں لیا اور سونگھا، پھر چکھا، تو ذائقہ انڈے کا لگا، پھر آپ نے عورت کو ڈانٹا اور جھڑکا، بالآخراس نے حقیقت کا اعتراف کرلیا۔[1] اس واقعہ سے دو اہم باتیں معلوم ہوتی ہیں: ٭ اسلامی نظام قضاء میں جرائم کی تحقیق واثبات کے لیے وسائل کا استعمال معہود تھا، جس میں فیصلہ کے لیے اقرار، گواہی، قسم، انکار… اورعلامات و قرائن سے مدد لی جاتی تھی۔ ٭ ناگہانی و جدید حادثات کے حل کے لیے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ بزرگ وممتاز صحابہ کرام سے مشورہ لیا کرتے تھے اور اس سلسلہ میں آپ کے نزدیک علی رضی اللہ عنہ کا ایک خاص مقام تھا۔[2] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اور فاروقی مالی واداری تنظیمات 1۔ مالی امور میں: الف:…خلیفہ کے اخراجات: سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد جب عمر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے خلیفہ بنے تو ایک طویل مدت تک آپ بیت المال سے اپنے لیے کچھ نہ لیتے تھے اور پھرایسا وقت آگیا کہ سخت ترین حالات اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، تجارت کا منافع ضرورت کے لیے کافی نہ ہوتا تھا، اس لیے کہ زیادہ تر وقت رعایا کے معاملات میں لگ جاتا تھا، حالات کی سنگینی سے مجبور ہوکر آپ نے اصحاب رسول اللہ کو بلا بھیجا اور ان سے اس سلسلہ میں مشورہ کیا، آپ نے کہا: میں نے خلافت اور اس کی دمہ داریوں کو نبھانے کے لیے خود کو اسی میں مکمل طورسے مشغول کرلیا ہے، لہٰذا اپنے اخراجات کے لیے مجھے اس سے کتنا لینے کی اجازت دیتے ہو؟ عثمان بن عفان اور سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ اس میں سے کھا، پی سکتے ہیں۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا ! آپ کیا کہتے ہیں؟ انھوں نے کہا: صرف صبح اور شام کا کھانا لے لیجئے۔[3] عمر رضی اللہ عنہ نے اسی پر عمل کیا اور بیت المال سے اپنی آمدنی کی وضاحت ان الفاظ میں کی:
Flag Counter