اسی طرح عمر رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ ’’ہمارے لیے اللہ کی کتاب کافی ہے‘‘ درحقیقت اس شخص کی مخالفت ہے جو آپ سے حجت کررہا تھا نہ کہ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم کی مخالفت ہے، کیونکہ آپ کے الفاظ ہیں: ((عِنْدَکُمْ کِتَابُ اللّٰہِ ))گویا آپ کے مخاطب کئی لوگ تھے جو آپ کی رائے کی مخالفت کررہے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ گہری نظر اور درست رائے کے مالک تھے، چونکہ غور وفکر کے بعد آپ اس نتیجہ پر پہنچے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان فوری طور سے واجب العمل کا متقاضی نہیں ہے اس لیے آپ نے ایک قوی اور شرعاً راجح مصلحت کو مقدم کرتے ہوئے وصیت نامہ کی تحریر پرزور دینے سے منع کیا اور وہ مصلحت یہ تھی کہ مرض کی شدت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ لکھوانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر شفقت اور محبت کے خلاف اور ایک نامناسب عمل ہے آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض کی شدت کو جن الفاظ میں تعبیرکیاہے وہ آپ کے اجتہاد کے برمحل اور درست ہونے کی قوی دلیل ہیں۔ آپ نے فرمایاتھا: ((إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم قَدْ غَلَبہُ الْوَجَعُ۔)) یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت تکلیف سے دوچار ہیں، لہٰذا مناسب نہیں ہے کہ ایسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مزید پریشانی اور تکلیف میں ڈالا جائے،[1] ساتھ ہی آپ کے ذہن میں یہ آیت کریمہ بھی گردش کررہی تھی۔ مَّا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍ ۚ (الأنعام : 38) ’’ہم نے کتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی۔‘‘ اور ارشاد الٰہی ہے: وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ (النحل : 89) ’’اور ہم نے تجھ پر یہ کتاب نازل کی، اس حال میں کہ ہر چیز کا واضح بیان ہے ۔‘‘ علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: شارحین حدیث نے عمر رضی اللہ عنہ کی اس رائے کو بالاتفاق ان کے تفقہ فی الدین کے دلائل، مناقب وفضائل اور دقت نظری میں شمار کیا ہے۔ [2]نیز واضح رہے کہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ وصیت نامہ کی عدم تحریر پرزور دینے میں ایک مجتہد تھے اور ’’مجتہدفی الدین‘‘ کی غلط رائے بہرحال قابل عفو ہے، بلکہ قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ((إِذَا حَکَمَ الْحَاکِمُ فَاجْتَہَدَ ثُمَّ أَصَابَ فَلَہُ أَجْرَانِ وَإَِذا حَکَمَ فَاجْتَہَدَ ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَہُ أَجْرٌ)) [3]کے مطابق اسے ثواب بھی ملتا ہے۔ تو آپ کو اس سلسلہ میں کیوں متہم کیا جاتا ہے، جب کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اجتہاد کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نہ کوئی مذمت کی، نہ گناہ گار کہا، بلکہ اپنے عمل سے اس کی موافقت ہی کی بہرحال اس واقعہ کے سہارے روافض شیعہ صحابہ کے خلاف جو بھی بد زبانی اور طعن کرتے ہیں وہ سب غلط ہیں، اور ان کی حقیقت سامنے آجاتی ہے۔[4] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |