Maktaba Wahhabi

217 - 1201
وارد ہے او رجن روایات میں ’’ہَجَرَ‘‘ یا ’’یَھْجِرُ‘‘ کے الفاط ہیں، وہ روایات محدثین وشارحین حدیث مثلاً قاضی عیاض،[1] قرطبی،[2] نووی،[3] اور ابن حجر [4]وغیرہ کے نزدیک مرجوح ہیں۔ ان محدثین نے صراحتاً یہ بات لکھی ہے کہ حاضر ین مجلس میں سے جب کسی نے کہا کہ نہ لکھو[5] تو ’’أَھَجَرَ‘‘ کے قائل نے استفہام انکاری کا یہ صیغہ استعمال کیا۔[6] امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے تبلیغ دین اور دیگر تمام احوال میں غلطیوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عصمت اور اس پر صحابہ کے اتفاق کے دلائل کو ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ ناممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت بیماری کی حالت میں آپ کے قول کی صداقت میں کسی شک کی بنا پر انھوں نے یہ بات کہی ہو، بلکہ جب قلم اور دوات لانے والے نے لانے میں تردد کیا اور اس سے پیچھے ہٹا، تو انھیں میں سے بعض لوگوں نے انکار وتو بیخ کے طور سے یہ بات کہی، گویا ان کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ تم لکھنے کا سامان کیوں نہیں لاتے، کیا سمجھتے ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیر اختیاری بات نہیں کریں گے، ترد دنہ کرو، اور سامان کتابت حاضر کرو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر حال میں حق کہیں گے، بے معنی کلام نہیں کریں گے۔ [7]تو یہ واضح دلیل ہے کہ تمام صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہذیان گوئی کے وقوع کو بالکل ناممکن سمجھے تھے، اسی وجہ سے جنھوں نے یہ جملہ استعمال کیا لازمی انکار کے لیے استعمال کیا، تاکہ مخالف کے لیے کس طرح سے شک وشبہہ کی گنجائش نہ نکلے اور اسی مفہوم سے روافض کا دعویٰ بھی باطل ہوجاتاہے[8] 6: روافض کا یہ دعویٰ کہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر ’’ تمھارے پاس اللہ کی کتاب ہے، ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معارضہ کیا، اور وصیت نامہ لکھوانے سے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل نہیں کی۔ اس بے بنیاد تہمت کا جواب یہ ہے کہ جنابِ عمر رضی اللہ عنہ اور آپ کے ہم خیال دیگر صحابہ کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ وصیت نامہ تحریر کروانے سے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم وجوبی نہیں ہے بلکہ مستقبل میں خلافت سے متعلق بہترین اقدام کی طرف رہنمائی مقصود ہے، اس لیے انھوں نے مخالفت کی، قاضی عیاض،[9] قرطبی،[10] نووی، [11]اور ابن حجر [12]رضی اللہ عنہ وغیرہ اسی بات پر قائل ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کے عمل سے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اسی اجتہاد کی تصدیق و توثیق بھی ہوئی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرض سے شفا پانے کے بعد پھر کچھ نہ لکھوایا، اگر اس کا لکھوانا، واجب ہوتا تو صحابہ کا اختلاف اس راستہ میں رکاوٹ نہ بنتا، کیونکہ کسی مخالف کی مخالفت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کی تبلیغ سے رک جانے والے نہ تھے، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اس واقعہ کو بھی عمر رضی اللہ عنہ کے ’’موافقات شرع‘‘میں شمارکیا جاتا ہے۔ [13]
Flag Counter