چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے کلمۂ شہادت پڑھ لیا، پھر اسلام لے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ابوطالب سے چھپ چھپا کر آیا کرتے اور اپنے اسلام کو ان پر ظاہر نہ کرتے۔[1] علی رضی اللہ عنہ اورابوطالب کے درمیان کیا پیش آیا: ابن اسحاق کا بیان ہے کہ بعض اہل علم بیان کرتے ہیں کہ جب نماز کا وقت ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی کسی گھاٹی میں جاکر عبادت کرتے اور آپ کے ساتھ علی بن ابی طالب بھی اپنے والد، چچا اور تمام افراد خاندان سے چھپ چھپ کر جاتے اور تمام نمازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادا کرتے، شام ہوجاتی تو گھر واپس آتے، یہ سلسلہ جب تک اللہ کو منظور تھا، جاری رہا، ایک دن جب کہ یہ دونوں نماز پڑھ رہے تھے، ابوطالب نے دیکھ لیا، ابوطالب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: عزیز من! یہ کون سا دین ہے جس کی تم پیروی کر رہے ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: عم محترم! اللہ کا، اللہ کے فرشتوں کا، اس کے پیغمبروں کا اور ہمارے جد امجد ابراہیم علیہ السلام کا دین ہے۔ دوسری روایت کے بموجب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے مجھے اپنے بندوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے، اور چچا جان! آپ سب سے زیادہ اس بات کے مستحق ہیں کہ آپ کے ساتھ خیرخواہی کروں اور راہ راست کی طرف دعوت دوں، آپ سب سے زیادہ مستحق ہیں کہ میری دعوت قبول فرمائیں اور میری مدد کریں، ابوطالب نے جواب دیا: اے میرے بھتیجے! میں اپنے آباء و اجداد کا مذہب اور ان کے طور طریق نہیں چھوڑ سکتا، لیکن اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جب تک میں زندہ ہوں تمھیں کوئی گزند نہیں پہنچے گا، سیرت نگاروں کا بیان ہے کہ آپ نے اپنے صاحبزادہ علی سے کہا: اے بیٹے! یہ کون سا مذہب ہے جس پر تم چل رہے ہو؟ انھوں نے کہا: والد صاحب! میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاچکا ہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اللہ کی عبادت کرتا ہوں اور ان کی پیروی کرتا ہوں، راویوں کا خیال ہے کہ اس کے جواب میں ابوطالب نے کہا: وہ تمہیں اچھی بات ہی کی طرف بلاتے ہیں، لہٰذا اس پر قائم رہو۔[2] کیا مکہ میں علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں خانہ کعبہ کے بتوں کو توڑا تھا؟ علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے اور کعبہ کے پاس آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: بیٹھ جاؤ، پھر آپ میرے کاندھوں پر پیر رکھ کر اونچے ہوئے اور کہا کہ کھڑے ہو جاؤ، میں کھڑا ہوا، مگر میری کمزوری کو آپ نے محسوس کرلیا، فرمایا: بیٹھ جاؤ، پھر خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور مجھ سے کہا کہ میرے کاندھوں پر سوار ہو جاؤ جب ایسا کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے لیے ہوئے کھڑے ہوگئے ، تو مجھے ایسا لگا کہ اتنا اونچا ہو رہا ہوں گو یا آسمان کی بلندی تک پہنچ جاؤں گا، میں اس طرح کعبہ کی چھت پر پہنچ گیا، وہاں پیتل یا تانبے کا بنا ہوا بت رکھا ہوا تھا، اس کو میں دائیں بائیں موڑنے اور آگے پیچھے جھکانے لگا، یہاں تک کہ جب اس کو اپنے قابو میں لے |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |