Maktaba Wahhabi

401 - 1201
طور سے اٹھا لانا یہ تمام کام نصاریٰ کے ہیں اور شرعاً ممنوع بلکہ حرام ہیں۔‘‘[1] امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’میں نے مہاجرین و انصار کی قبروں کو پختہ اور چونا کاری کیا ہوا نہیں دیکھا، ہاں ان حکام کو ضرور دیکھا جو مکہ میں پختہ قبروں کو توڑ رہے تھے، لیکن فقہائے اسلام میں سے کسی نے اسے برا نہیں کہا۔‘‘[2] امام نووی شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’قبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہاتھ سے چھونا، یا اسے بوسہ دینا حرام ہے، بلکہ ادب کا تقاضا یہ ہے کہ جس طرح آپ کی زندگی میں احتراماً آپ سے دور بیٹھا جاتا تھا اسی طرح وفات کے بعد بھی آپ کی قبر سے دور ہی رہا جائے، یہی صحیح بات ہے اور اسی پر سب کا عمل ہے۔‘‘[3] امام سبکی فرماتے ہیں: ’’قبر کو چھوا نہ جائے اس سے قریب نہ ہوا جائے اور نہ ہی اس کا طواف کیا جائے۔‘‘[4] ب:…مزاروں پر عرس اور میلے کی تاریخی و شرعی حیثیت: قبروں اور مزاروں پر سالانہ عرس او رمیلے لگانے کا آغاز چوتھی صدی ہجری میں عبیدیوں (فاطمیوں) نے کیا۔ مؤرخ احمد بن علی المقریزی لکھتے ہیں: وہ (فاطمی) لوگ چھ عید میلاد کیا کرتے تھے، عید میلا النبی، عید میلاد علی بن ابی طالب، عید میلاد حسن اور حسین، عید میلاد فاطمہ ( رضی اللہ عنہم ) اور عید میلاد خلیفہ وقت۔ وہ لوگ حسین رضی اللہ عنہ کی قبر کے پاس اونٹ، گائے اور بکری کا ذبیحہ پیش کرتے تھے۔[5] حالانکہ اس تاریخ سے پہلے گزشتہ تین صدیوں میں مسلمانوں نے کبھی قبروں کے پاس میلہ نہیں لگایا اور نہ ہی کوئی عرس کیا، اس کی دلیل اس بات سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ بیشتر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بقیع الغرقد کے باہر، مصر، شام اور عراق میں مدفون ہوئے، لیکن ان کی قبریں غیر معروف رہیں، ان کی کوئی شہرت نہ رہی، اور اگر کسی کی قبر کی شناخت بھی ہوئی تو مؤرخین اور سیرت نگاروں کے درمیان قبر کی تعیین و تجدید کا موضوع مختلف فیہ رہا۔ پس اگر قبروں کی اتنی اہمیت تھی تو سیرت نگاروں سے صحابہ کی قبریں کیوں کر پوشیدہ رہ گئیں، جب کہ وہ لوگ دین، عبادت، علم اور جہاد کے علم بردار، ہدایت کے منار اور صاحب علم و نیکوکار تھے، اگر ان کے یا ان کے تابعین کے زمانہ میں قبروں کی کوئی قابل ذکر اہمیت ہوتی تو ان کی جگہیں پوشیدہ نہ ہوتیں اور نہ مؤرخین کا اس میں اختلاف ہوتا، قرون اولیٰ کے بعد کہ جنھیں خیر القرون کہا گیا ہے، قبروں کی طرف عوام الناس کی خصوصی توجہ سے اس کی مشروعیت کبھی ثابت نہیں ہوسکتی، خاص طور سے جب کہ اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر کو عیدگاہ بنانے اور اس پر عرس اور میلہ لگانے سے منع فرما چکے ہوں، اس صریح ممانعت کے بعد بھی اگر کوئی شخص ایسا
Flag Counter