2۔غزوۂ بدر میں: سیّدنا طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ قریش کے قافلہ کی جاسوسی پر مقرر کیے گئے تھے، یہ اس وقت کی بات ہے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اندازہ ہوا کہ اب قریش کا قافلہ شام سے لوٹ کر اِدھر سے گزرنے ہی والا ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طلحہ اور سعید بن زید رضی اللہ عنہما کو بھیجا کہ جاؤ اور اس قافلہ کی خبر لاؤ، وہ دونوں گئے اورحوراء تک پہنچے، پھر وہاں اس وقت تک ٹھہرے رہے جب تک کہ قافلہ وہاں سے گزر کر ساحلی علاقہ تک نہیں پہنچ گیا۔ اس کے بعد وہ دونوں خبریں لے کر مدینہ لوٹ آئے، اِدھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچ چکی تھی اور وہ مسلمانوں کو لے کر غزوۂ بدر کے لیے نکل چکے تھے، ان دونوں نے اپنی حد تک بہت جلدی کی تاکہ مسلمانوں کی فوج سے جاملیں، لیکن جب تک یہ وہاں پہنچے تب تک لڑائی ختم ہوچکی تھی اور یہ دونوں غزوہ میں شریک نہ ہوسکے، پھر بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کی طرح ان دونوں کو بھی حصہ دیا۔[1] 3۔غزوۂ احد میں طلحہ رضی اللہ عنہ نے جنت واجب کرلی: سیّدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب احد کی لڑائی لڑی جارہی تھی اور لوگ اللہ کے رسول کے پاس سے دور نکل گئے تھے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم بارہ (12) آدمیوں کے ساتھ ایک کنارا پر موجود تھے، ان میں طلحہ بھی تھے، مشرکین نے آپ کو پالیا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا: ((مَنْ لِلْقَوْمِ؟)) کون ہے جو انھیں ہٹائے؟ طلحہ نے کہا: میں۔ آپ نے فرمایا: ((کَمَا اَنْتَ)) تم جہاں ہو وہیں رہو، تب ایک انصاری نے کہا: میں، چنانچہ وہ لڑے اور لڑتے لڑتے شہید ہوگئے، پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اردگرد متوجہ ہوئے، دیکھا تو مشرکین کے نرغہ میں ہیں، آپ نے فرمایا: ((من لہم؟)) کون ہے جو انھیں ہٹائے؟ طلحہ نے کہا: میں، آپ نے فرمایا: ((کَمَا اَنْتَ)) تم جہاں ہو وہیں رہو، تب تک ایک دوسرے انصاری بول اٹھے کہ میں۔ آپ نے فرمایا: ((اَنْتَ)) ہاں تمھیں، پھر انھوں نے مقابلہ کیا، یہاں تک کہ وہ بھی شہید ہوگئے، پھر یہی صورت حال بنی رہی اورآخر میں صرف طلحہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہ گئے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر کہا: ((من للقوم؟)) طلحہ نے کہا: میں۔ چنانچہ آپ نے بھی گیارہ صحابہ کی طرح مشرکین کا مقابلہ کیا، یہاں تک کہ آپ کی انگلیاں کٹ گئیں، آپ کے منہ سے یہ الفاظ نکلے: سی، سی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَوْ قُلْتَ بِسْمِ اللّٰہِ لَرَفَعَتْکَ الْمَلَائِکَۃُ وَ النَّاُس یَنْظُرُوْنَ۔))[2] ’’اگر تم نے بسم اللہ کہا ہوتا تو فرشتے تمھیں لوگوں کے سامنے ہی آسمان کی فضا میں اٹھا لیتے۔‘‘ اور مسند احمد کے الفاظ ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے طلحہ سے فرمایا تھا: ((لَوْ قُلْتَ بِسْمِ اللّٰہِ لَرَأَیْتَ یُبْنَی لَکَ بِہَا بَیْتٌ فِی الْجَنَّۃِ وَ أَنْتَ حَيٌّ فِي الدُّنْیَا۔))[3] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |