Maktaba Wahhabi

530 - 1201
کرکے موجودہ دور کے بعض ادباء و سیرت نگار مثلاً عقاد نے ’’عبقریۃ علی‘‘ میں اور عبدالعزیز الدوری نے ’’مقدمہ فی تاریخ صدر الاسلام‘‘ میں جو کچھ لکھا اور تجزیے قائم کیے وہ تمام روایات متروک ہیں اور اس کے ناقلین عدل و ضبط میں مطعون ہیں۔[1] بہرحال علی رضی اللہ عنہ کی پوری مدت خلافت میں ریاست شام پر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کی بالادستی قائم رہی، اور علی رضی اللہ عنہ اسے آزاد کرانے یا کسی گورنر کو وہاں متعین کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ شام کے مشرقی علاقہ میں علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کی افواج کے درمیان چند ایک جھڑپیں بھی ہوئیں، جن میں سب سے اہم صفین کی جنگ رہی، جو 37ھ میں واقع ہوئی جس میں معاویہ اور علی رضی اللہ عنہما نے شرکت کی، تاہم یہ چھڑپیں شام پر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بالادستی کے لیے مانع نہ ہوئیں۔[2] جزیرہ: سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جزیرہ، شام کی ماتحت ریاستوں میں سے ایک تھی، لیکن عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جب شام معاویہ رضی اللہ عنہ اور عراق علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں چلا گیا تو ’’جزیرہ‘‘ دونوں فریقوں کے درمیان محل نزاع بن گیا، کیونکہ جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے اس کی ایک سرحد شام سے ملتی تھی اور دوسری عراق سے۔[3] اسی وجہ سے طرفین میں سے ہر ایک کے لیے اس پر قابض ہونا آسان نظر آتا تھا، چنانچہ اس پر قابض ہونے کے لیے علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کی افواج میں کئی مرتبہ زبردست لڑائیاں ہوئیں، لیکن روایات سے ایسا معلوم ہوتاہے کہ ایک مختصر مدت کے لیے علی رضی اللہ عنہ ہی کو غلبہ حاصل ہوا۔[4] اور ’’اشتر‘‘ کو وہاں کا گورنر مقرر کیا۔ اشتر ہی جزیرہ کا سب سے مشہور گورنر رہا۔[5] اس لیے کہ اس کو علی رضی اللہ عنہ نے متعدد بار وہاں کا گورنر بنایا تھا، جس سے اسے وہاں کے معاملات کو درست رکھنے میں زیادہ مہارت رہی۔ پھر 38ھ میں علی رضی اللہ عنہ نے سخت ضرورت محسوس کی کہ اسے مصر کا گورنر بنادیں،[6] اس کے بعد جزیرہ میں پھر بدامنی اور اضطراب پیدا ہوا اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے حامی جزیرہ پر قابض ہونے کے لیے متحرک ہوگئے اور اس کے بعد دونوں میں کئی لڑائیاں ہوئیں۔[7] بظاہر روایت سے ایسا معلوم ہوتاہے کہ 39ھ کے اواخر میں معاویہ رضی اللہ عنہ کسی حد تک جزیرہ پر غالب آچکے تھے۔[8] جزیرہ علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما دونوں سے کنارہ کش رہنے والوں کے لیے جائے پناہ بھی تھا، یہ وہی لوگ تھے جنھوں نے دونوں کے ناخوشگوار حالات میں علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر بیعت نہ کی تھی۔[9] چونکہ یہ طرفین کے درمیان واقع
Flag Counter