ابن ہشام ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ ابن اسحاق نے علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب تین قصیدے نقل کیے ہیں، حالانکہ ان کی نسبت آپ کی طرف صحیح نہیں ہے۔ بلکہ درست بات یہ ہے کہ کسی اسلامی معرکہ کے موقع پر ان قصائد کو کسی مسلم شاعر نے کہا تھا اور جب بعد کے ناقلین سیرت نگاروں نے ان اشعار کے دینی معانی پر غور کیا تو دیکھا کہ یہ علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ مناسب ہیں اس لیے انھوں نے ان اشعار کو آپ کی طرف منسوب کردیا۔ جہاں تک آپ کی طرف منسوب شعری دیوان کا تعلق ہے تو اس سلسلہ میں معروف ڈاکٹر نائف کی تحقیق یہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کی جو فصاحت و بلاغت معہود و مشہور ہے وہ اس دیوان کے شعری مجموعہ کے معیار سے کہیں زیادہ بلند ہے، غالب گمان یہ ہے کہ مختلف معیار کے شعراء کے کلام کا یہ معجون مرکب ہے، جسے آپ کے چند معتقدین نے اس لیے جمع کیا اور دیوان کی شکل دے دی کہ ان لوگوں پر آپ کا شاعر نہ ہونا گراں گزرتا تھا، اور ان کا خیال تھا کہ اس سے لوگوں کی نگاہ میں آپ کا مقام و مرتبہ بڑھ جائے گا۔ حالانکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان شعراء میں سے نہیں تھے جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے دفاع میں مشرکین شعراء کا منہ توڑ جواب دینے کی ذمہ داری اپنے سر اٹھا رکھی تھی۔[1] لیکن اس قدر شعر و شاعری سے ناآشنا بھی نہ تھے جتنا کہ یاقوت حموی ابوعثمان مازنی کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے دو ابیات کے علاوہ کوئی شعریہ کلام نہیں کہا ہے۔[2] کیونکہ متعدد روایات مازنی کے اس قول کے بالکل خلاف ثابت ہیں اور راویوں نے آپ کی طرف کئی قطعات کی صحیح نسبت کو ثابت بھی کیا ہے۔[3] انھیں میں سے چند اشعار یہاں تحریر کیے جاتے ہیں: 1۔ فراخی اور تنگ دستی کے بارے میں: إِذَا اشْتَمَلَتْ عَلَی النَّاسِ الْقُلُوْبُ وَ ضَاقَ بِمَا بِہِ الصَّدْرُ الرَّحِیْبُ ’’جب انسانوں کے دل و دماغ پریشان ہوجائیں، اور پریشانیوں سے ان کے کشادہ سینے تنگ ہوجائیں۔‘‘ وَ أَوطَنَتِ الْمَکَارِہُ وَ اَطْمَأَنَّتْ وَ أَرْسَتْ فِي أَمَاکِنِہَا الْخُطُوْبُ ’’اور ہر طرح کی مشکلات و مصائب انھیں اپنا مسکن بنالیں اور لاینحل مسائل جڑ پکڑ لیں۔‘‘ وَ لَمْ تَرَ لِا نْکِشَافِ الضُّرِّ وَجْہًا وَ لَا اَغَنَی بِحِیْلَتِہِ الْأَرِیْبُ ’’اور مصائب و مشکلات کے خاتمہ کی کوئی صورت نظر نہ آرہی ہو اور اچھے اچھے دانا و بینا ان کا حل پیش کرنے سے عاجز آجائیں۔‘‘ اَتَاکَ عَلَی قُنُوْطٍ مِنْکَ غَوْثٌ یَمُنُّ بِہِ الْقَرِیْبُ الْمُسْتَجِیْبُ ’’ایسی ناامیدی اور بے بسی میں تم پر مدد نازل ہوگی، یہ احسان ہوگا اس ہستی کی طرف سے جو انتہائی قریب اور دعاؤں کو سننے والی ہے۔‘‘ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |