Maktaba Wahhabi

422 - 1201
’’آپ نے مجھے ایسا لباس پہنایا جس کے محاسن بوسیدہ ہوجائیں گے، جب کہ میں آپ کو تعریف کا ایسا پوشاک پہناؤں گا جو بوسیدہ ہونے والا نہیں ہے۔‘‘ شعر و ادب کی دنیا میں علی رضی اللہ عنہ نے ایسے بلند پایہ تنقیدی نظریات چھوڑے ہیں جنھیں آج تک ناقدین فن کے نزدیک معیار و کسوٹی کی حیثیت حاصل ہے، چنانچہ آپ فرماتے ہیں: شعر کلام کا میزان ہے۔[1] یعنی شعر کی کچھ فنی خصوصیات ہوتی ہیں جو ماہرین فن کو سطحی و معیاری کلام کی شناخت اور ان کا پیمانہ مقرر کرنے میں معاون ہوتی ہیں، اگرچہ شعر و شاعری کے اغراض و مقاصد کے سلسلہ میں دوسرے لوگوں کا معیار اس سے مختلف ہو۔[2] آپ کی طرف منسوب شدہ بیشتر اشعار کے بارے میں اختلاف ہے کہ کیا وہ آپ ہی کا کلام ہے یا نہیں؟ لیکن اس سے آپ کی شاعرانہ حیثیت متاثر نہیں ہوتی اور نہ ہی اس سے آپ کی لغوی و ادبی امامت پر کوئی حرف آتاہے کیونکہ آپ سے ثابت شدہ اشعار آپ کو بحیثیت شاعر اجاگر کرنے کے لیے کافی ہیں۔ ہاں یہ بات ضرور متحقق ہے کہ شعر و شاعری آپ کی زندگی کا مقصد نہ تھا، اسی طرح آپ کی سیاسی زندگی کے ساتھ لگے بندھے بڑے بڑے واقعات و حادثات نے آپ کو موقع بھی نہیں دیا کہ آپ خود شعر و شاعری کرتے اوراس کی روایت میں دلچسپی لیتے۔ تاہم آپ کے کئی اشعار مشہور ہیں اور چند قصائد و قطعات پر مشتمل اشعار کا ایک شعری دیوان بھی آپ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے، اس میں آپ کے بہت سارے فی البدیہہ کہے گئے شعار میں نہایت اعلیٰ معیار کے مضبوط و درست خیالات پائے جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ ابن ہشام وہ پہلے مؤرخ ہیں جنھوں نے علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہونے والے بعض قصیدوں کے بارے میں شک کا اظہار کیا ہے۔ چنانچہ یہ مروی ہے کہ مدینہ میں مسجد نبوی کی تعمیر کے وقت علی رضی اللہ عنہ یہ رجزیہ اشعار پڑھ رہے تھے: لَا یَسْتَوِیْ مَنْ یَّعْمُرُ الْمَسْجِدَا یَدْأَبُ فِیْہِ قَائِمًا وَ قَاعِدًا وَ مَنْ یُری عَنِ الْغُبَارِ حَائِدًا[3] ’’جو شخص مسجد کی تعمیر کرتا ہے، اس میں قیام و قعود ہر حالت میں برابر لگا ہوا ہے اور وہ شخص جو گرد و غبار سے کتراتا نظر آتا ہے دونوں برابر نہیں ہوں گے۔‘‘ ابن ہشام رحمۃ اللہ علیہ اس شعر کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’میں نے کئی علماء سے ان اشعار کے بارے میں دریافت کیا تو سب نے یہی کہا کہ ہم تک پہنچے والی روایات کی روشنی میں بس ہم اتنا جانتے ہیں کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ان رجزیہ اشعار کو پڑھا۔ پھر فرماتے ہیں، لیکن یہ نہیں معلوم کہ یہ آپ کا کلام ہے یا دوسرے کا۔‘‘[4]
Flag Counter