سیّدنا علی رضی اللہ عنہ جس شہر اور ریاست میں کوئی قاضی مقرر کرتے وہی وہاں کا گورنر بھی ہوا کرتا، اس لیے منصب ولایت کے اختیارات عمومی تھے ، اس میں فیصلہ دینا، ادارتی ذمہ داریاں سنبھالنا، حدود نافذ کرنا، امامت کرنا اور صدقات کی وصولی جیسے کام شامل تھے۔[1] بعض اوقات قاضیوں کی تقرری میں اپنے گورنروں کو یہ ہدایت دیے ہوتے کہ خوب تحقیق و تفتیش کے بعد انھیں منتخب کریں، پس گاہے بگاہے آپ کا عمل اس بات کی دلیل ہے کہ بڑی بڑی ریاستیوں کے تابع چھوٹے چھوٹے شہروں میں قاضی کی تقرری کا اختیار گورنر کو ہوتا تھا، حالانکہ بیشتر یہی ہوتا تھا کہ گورنرانِ ریاست جن شہروں میں اقامت گزیں ہوتے وہاں کے قاضی بھی ہوتے، اس دور کے قاضیوں کے حالات کا جائزہ لینے سے ایسا لگتا ہے کہ قاضیوں کے فیصلوں کے خلاف جو مقدمات دائر ہوتے تھے اور خاص طور سے ایسے قاضیوں کے فیصلے جن کا تقرر ریاست کا گورنر کرتا تھا، ریاستی گورنران کو ایسے دیوانی کے مقدمات میں نظر ثانی کا حق حاصل ہوتا تھا، اسی طرح چونکہ ریاست پر ان کا دائرہ اختیار عمومی ہوتا تھا اس لیے خلیفہ کی طرف سے مقرر کردہ قاضیوں کے دیوانی مقدمات پر نظر ثانی کا انھیں حق ہوتا تھا۔[2] البتہ اتنا ضرور تھا کہ جب اس طرح کے معاملات پیش آجاتے تو گورنرانِ ریاست خلیفہ وقت سے رجوع کرتے اوریہ کوئی نئی بات نہ تھی، بلکہ خلفاء اپنی عادت کے مطابق ہر کس و ناکس کی شکایات سننے کے لیے اپنا دروازہ کھلا رکھتے تھے، خواہ یہ شکایات گورنروں کے خلاف ہوں، یا قاضی کے یا خراج کے محصلین وغیرہ کے خلاف۔[3] امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کا اسلوب قضائ، اپنے پیشرو خلفاء کے فیصلوں سے متعلق آپ کا نظریہ، قضاء کے موہلین، اس کی مخصوص جگہ اور رشوت سے پاک صاف مفت فیصلہ: 1: اسلوب قضاء کي سابقہ نوعیت پر اکتفا کرنا: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اسلوب قضاء اور سماعت مقدمات کے اصولوں میں بعض ایسی تبدیلیاں لاناچاہتے تھے جو معاشرہ کو درپیش جدید تقاضوں کے مناسب ہوں، لیکن آپ نے حالات کو قابو میں آجانے تک کے لیے انھیں مؤخر کیا، چنانچہ آپ فرماتے: تم جیسے پہلے فیصلہ کرتے تھے کرتے رہو، یہاں تک کہ سب ایک جماعت ہو جاؤ، کیونکہ میں اختلافات سے ڈرتا ہوں۔[4] 2: سابقہ فیصلوں کو اپني حالت پر باقي رکھنا: ملکی حالات میں امن و استقرار پیدا کرنے کی خاطر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا خیال تھا کہ بعد میں آنے والا قاضی اپنے ماقبل کے فیصلہ کو منسوخ نہ کرے، آپ نے نجران کے نصاریٰ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ایک معاہدہ تحریر کیا تھا، سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے عہد حکومت میں جب ان کی تعداد زیادہ ہوگئی تو آپ نے مسلمانوں کے لیے ان سے خطرہ محسوس کیا، ایک مرتبہ ان کے درمیان اختلاف واقع ہوا، وہ سب عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور معاہدہ میں تبدیلی کا |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |