مطالبہ کیا۔ آپ نے معاہدہ میں تبدیلی کردی اور ان پر مزید کچھ تاوان عائد کردیا، پھر وہ سب اپنے مطالبہ پر نادم ہوئے اور چاہا کہ بدلے ہوئے معاہدہ کو منسوخ کردیں، لیکن آپ نے اسے ماننے سے انکار کردیا، پھر جب علی رضی اللہ عنہ کا دور آیا تو وہ سب آپ کے پاس آئے اور کہا کہ اے امیر المومنین! آپ کی اپنی زبان کی سفارش تھی اور آپ کے ہاتھوں کی تحریر تھی آپ اوّل معاہدہ کو نافذ کردیں۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمھارا ستیاناس ہو، عمر رضی اللہ عنہ معاملہ شناس تھے۔[1] میں سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلہ کو منسوخ نہیں کرسکتا۔[2] 3: قضاء کي اہلیت: منصب قضاء ایک عمومی منصب ہے، اس لیے ملکی اقتدار اعلی یعنی حاکم وقت کے لیے عقل، بلوغت اور اسلام جیسی جو اہم شرائط ہیں قاضی کے لیے بھی وہی چیزیں مشروط ہیں، مزید برآں قاضی کے لیے ضروری شرط یہ ہے کہ وہ پاک دامن ہو، لالچی نہ ہو، بردبار ہو بے صبرا نہ ہو، بات سن کر جذبات نہ بھڑکیں، بے موزوں تصرف کو دیکھ کر غصہ میں نہ آئے، احکام شریعت اور اس کے ناسخ و منسوخ کا عالم ہو، چنانچہ علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک قاضی سے پوچھا: کیا تمھیں شریعت کے ناسخ و منسوخ کا علم ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: تم خود ہلاک ہوئے اور دوسروں کو بھی ہلاک کیا۔[3] آپ نے اس قاضی سے ناسخ و منسوخ کے بارے میں خاص طور سے اس لیے پوچھا تھا کہ اس دور میں ناسخ و منسوخ کی معرفت کوئی آسان چیز نہ تھی۔ قاضی کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ اپنے ماسبق قاضیوں کے فیصلوں کا اسے علم ہو، تاکہ ان کے راستہ سے نہ ہٹے اور احکامات کی بے ضابطگی کی جڑ کٹ جائے۔ قاضی کو متواضع ہونا چاہیے، اپنے سے زیادہ ذی علم اور عقل مند سے مشورہ لینے میں وہ ہچکچاہٹ نہ محسوس کرے، اس لیے کہ ایسے افراد سے مشورہ لینا اسے فیصلوں میں غلطی کرنے سے بچانے والا ہے۔ وہ حق کے لیے بے باک ہو، حق فیصلہ سنانے سے پیچھے نہ ہٹے، اگرچہ حاکمِ وقت ناراض ہی کیوں نہ ہو، اس سلسلہ میں علی رضی اللہ عنہ کا یہ زریں قول مذکورہ تمام اوصاف کو شامل ہے۔ آپ فرماتے ہیں: کوئی قاضی اس وقت تک قاضی نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس میں پانچ اوصاف نہ ہوں: (1)پاک دامنی، (2)بردباری، (3)ماسبق فیصلوں کا علم، (4)علماء و دانش وروں سے مشورہ، (5)اللہ کے لیے کسی ملامت گر کی ملامت سے بے باکی۔[4] 4: محکمہ کا موقع و محل: قاضی کے لیے ضروری ہے کہ مقدمات کی سماعت کے لیے شہر کی مرکزی جگہ پر بیٹھے تاکہ ہر ایک کے لیے وہاں تک پہنچنا آسان ہو، اسی لیے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ قاضی شریح کو حکم دیتے تھے کہ وہ فیصلہ کے لیے جامع مسجد میں بیٹھیں[5] تاکہ فریادیوں کا ان تک پہنچنا آسان ہو۔[6] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |