Maktaba Wahhabi

624 - 1201
خلاصہ بحث یہ ہے کہ جب ہم طلحہ وزبیر اور معاویہ رضی اللہ عنہم کے موقف کا باہم موازنہ کرتے ہیں تو یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ معاویہ کے بالمقابل طلحہ وزبیر چار اعتبار سے حق کے قریب تر تھے اور انھیں کا موقف زیادہ صحیح تھا: 1۔ سمع و اطاعت کا مظاہرہ اور علی رضی اللہ عنہ کی افضلیت کا اعتراف کرتے ہوئے ان دونوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلی، جب کہ معاویہ علی رضی اللہ عنہ کے فضل ومرتبہ کے معترف ہونے کے باوجود بیعت کرنے سے باز رہے۔[1] 2۔ اسلام اور مسلمانوں کی نگاہ میں ان دونوں کا جو مرتبہ ہے اور سبقت الی الاسلام کی انھیں جو فضیلت حاصل رہی، بلاشبہ ان چیزوں کے مقابلہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ ان کے ہم پلہ نہیں تھے۔[2] 3۔ ان دونوں نے صرف عثمان رضی اللہ عنہ کے باغیوں کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا اور علی رضی اللہ عنہ سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی اور نہ ہی معرکۂ جمل میں علی اور ان کے ساتھیوں سے قصداً لڑائی لڑی۔[3] جب کہ معاویہ رضی اللہ عنہ معرکۂ صفین میں علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ محاذ آرائی پر مصر رہے۔ [4] 4۔ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لینے کے معاملہ میں ان دونوں نے علی رضی اللہ عنہ کو نرمی کرنے یا قاتلین کو مہلت دینے سے کبھی متہم نہیں کیا جب کہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے آپ کو اس بات سے متہم کیا۔ [5] فتنہ سے کنارہ کش رہنے والوں کا موقف: فتنہ قتل عثمان رضی اللہ عنہ سے کنارہ کش رہنے والے بیشتر صحابہ رضی اللہ عنہم کے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث تھی: (( سَتَکُوْنُ فِتَنٌ، اَلْقَاعِدُ فِیْہَا خَیْرٌ مِنَ الْقَائِمِ وَالْقَائِمُ فِیْہَا خَیْرٌ مِنَ الْمَاشِيْ وَالْمَاشِيْ فِیْہَا خَیْرٌ مِنَ السَّاعِيْ مَنْ تَشَرَّفَ لَہَا تَسْتَشْرِفُہُ فَمَنْ وَجَدَ مِنْہَا مَلْجَأً أَوْ مُعَاذاً فَلْیَعُذْبِہِ۔)) [6] ’’عنقریب ایسے فتنہ برپا ہوں گے جن میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے بہتر ہوگا اور کھڑا ہونے والا ان میں چلنے والے سے بہتر ہوگا اور چلنے والا ان میں دوڑنے والے سے بہتر ہوگا، جو دور سے ان کی طرف جھانک کر بھی دیکھے گا تو وہ ان کو بھی سمیٹ لیں گے، اس وقت جب کسی کو کوئی پناہ کی جگہ مل جائے یابچاؤ کا مقام مل سکے وہ اس میں چلاجائے۔‘‘
Flag Counter