Maktaba Wahhabi

970 - 1201
تو آیت کریمہ میں مطلوبہ اوصاف سے جو فرد بھی متصف ہے وہ عصمت اور امامت کا مستحق ٹھہرے گا اور فاطمہ رضی اللہ عنہا خاص طور سے اس کی مستحق ہوں گی، چنانچہ معلوم ہوا کہ آیت کریمہ میں امامت و عصمت کا موضوع ہرگز نہیں مراد لیا گیا ہے، نیز ناقابل اعتبار ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اگر آیت کریمہ میں عصمت وامامت ہی مراد ہے تو اس سے صرف تین ہی کے حق میں امامت و عصمت کی خصوصیت ثابت ہوتی ہے نہ کہ ان سے زیادہ کی، جب کہ شیعہ عقائد کے مطابق ان کے مزید نو (9) ائمہ ہیں جو معصوم ہیں اور جو آیت کریمہ شامل نہیں ہے۔[1] 3۔ شیعی مرویات سے دلائل: عصمت امام اور اس طرح کے دیگر عقائد کے بارے میں اثنا عشری یعنی بارہ اماموں کے قائلین شیعہ، مولف کتاب ’’الکافی‘‘ اور ابراہیم القمی اور مجلسی جیسے علماء کی مرویات پر اعتماد کرتے ہیں، جن کی روایات سنداً ناقابل اعتبار ہونے کی وجہ سے متن کے اعتبار سے بھی منکر ہیں، چنانچہ مجلسی نے ’’باب عصمت ائمہ‘‘ کے تحت اپنے مشائخ مثلاً القمی، العیاشی اور مفید سے تقریباً تیئس (23) روایات نقل کی ہیں اور ان روایات کو سورہ بقرہ کی آیت وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ (البقرۃ: 124) سے استدلال کرنے کے بعد ذکر کیا ہے، اور اس آیت سے استدلال کا بطلان پچھلے صفحات میں واضح ہو چکا ہے۔ جب کہ کلینی نے اپنی کتاب ’’الکافی‘‘ میں ائمہ کے حق میں اپنی مزعومہ عصمت کو ثابت کرنے کے لیے کئی ابواب باندھے ہیں اور اپنی سند سے ان بارہ اماموں کے بارے میں ایسی مرویات نقل کی ہیں جن کے حوالہ سے ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے بارہ امام معصوم ہیں بلکہ وہ انھیں نبوت میں بھی شریک مانتے ہیں، اور اس سے بھی زیادہ غلو کی انتہا یہ ہے کہ وہ انھیں اوصاف الٰہی سے متصف مانتے ہیں، اس کی بے شمار مثالیں آپ کو ان کی کتاب ’’الکافی‘‘ میں ’’أبواب اصول الدین‘‘ اور باب ’’ان الائمۃ ہم أرکان الأرض‘‘ کے ضمن میں ملیں گی، اس میں مصنف کتاب نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ بارہ امام اطاعت کے وجوب، فضیلت اور تکلیفی احکامات دینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ہیں جو اطاعت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ضروری تھی وہ آپ کے بعد علی رضی اللہ عنہ کے لیے ضروری ہے۔[2] اور پھر اسی پر بس نہیں کرتے بلکہ ان ائمہ کا مقام، مقام رسالت سے اٹھا کر مقام الوہیت تک پہنچا دیتے ہیں، چنانچہ ان ابواب کے ماتحت روایات میں ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’میں ان اوصاف سے نوازا گیا ہوں جنھیں مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دیا گیا، مجھے موت اور مصائب کا علم ہے، جو کچھ مجھ سے پہلے ہو چکا ہے وہ مجھ سے پوشیدہ نہیں، اور مستقبل میں جو کچھ ہوگا وہ میری نگاہوں سے غائب نہیں۔‘‘[3] جب کہ قرآنی بیان کے بموجب موت اور مصائب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ فرمایا:
Flag Counter