Maktaba Wahhabi

166 - 1201
پھر پوچھا گیا: مردوں میں سے؟ آپ نے جواب دیا: ان کے باپ (ابوبکر)۔[1] ان دونوں احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہے، کیوں کہ علی اور فاطمہ رضی اللہ عنہما کے سب سے زیادہ محبوب ہونے کا مطلب ہے کہ آپ کے اہل بیت میں عورتوں میں فاطمہ رضی اللہ عنہا اور مردوں میں علی رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ ابن العربی اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں: ’’تمام مردوں میں ابوبکر رضی اللہ عنہ ، بیویوں میں عائشہ رضی اللہ عنہا اوراپنے اہل میں فاطمہ رضی اللہ عنہا عورتوں میں سے، اور علی رضی اللہ عنہ مردوں میں سے، اللہ کے رسول کے صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب تھے، محبت کی اسی ترتیب و درجہ بندی سے تمام روایات کا اشکال ختم ہوجاتا ہے۔‘‘[2] 8۔ لب و لہجہ کی صداقت: امام حاکم اپنی سند سے عائشہ رضی اللہ عنہا تک روایت نقل کرتے ہیں کہ جب آپ فاطمہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتیں تو کہتیں: میں نے ان کے والد کے علاوہ ان سے بہتر خوش گفتار کسی کو نہ دیکھا۔[3] اس روایت میں فاطمہ کی منقبت بالکل صاف نظر آرہی ہے۔ یہی عائشہ، فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں کہتی ہیں: وہ اپنی شکل و صورت، چال، ڈھال اور حسن حال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت مشابہ تھیں، اسی طرح صدق گوئی میں بھی ان کا لب و لہجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا تھا۔[4] 9۔ دنیا و آخرت کی سرداری: متعدد صحیح احادیث میں وارد ہے کہ دنیا و آخرت دونوں جگہ آپ کو سیادت نصیب ہوگی، چنانچہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((حَسْبُکَ مِنْ نِسَائِ الْعَالَمِیْنَ مَرْیَُم بِنْتُ عِمْرَانَ، وَ خَدِیْجَۃُ بِنْتُ خُوَیْلِدٍ، وَ فَاطِمَۃُ بِنْتُ مُحَّمَدٍ، وَ آسِیَۃُ امْرَأَۃُ فِرْعَوْنَ۔))[5] ’’خواتین دنیا میں سے مریم بنت عمران، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد اور فرعون کی بیوی آسیہ کی فضیلت پر بس ہے۔‘‘ سیّدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((فَاطِمَۃُ سَیِّدَۃُ نِسَائِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ، إِلَّا مَا کَانَ مِنْ مَرْیَمَ بِنْتِ عِمْرَانَ۔))[6]
Flag Counter