تاویل تک محدود ہے، انھوں نے حصول جنت کے لیے طمع بڑھائی اور اس کے لیے کوشش بھی کی، لیکن ایسے راستہ سے جو دین میں تشدد، تعمق اور مبالغہ کا راستہ تھا، اور یہی چیز انھیں حد اعتدال سے نکالنے کا سبب بنی۔[1] چنانچہ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین میں تشدد کرنے اور اس میں بہت زیادہ کرید کرنے سے منع فرمایا، کیونکہ یہ چیز اسلام کی اعتدال پسندی اور وسیع رواداری کے خلاف ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبردار کیا کہ دین میں تکلف کرنے والا ہلاکت اور نقصان کا مستحق ہے۔ ارشاد فرمایا: ((ہَلَکَ الْمُتَنَطِّعُوْنَ۔)) [2]… ’’دین میں تکلف کرنے والے ہلاک ہوگئے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی بات تین مرتبہ دہرائی، پس یہ حدیث ہمارے سامنے خوارج کی شذوذیت اور انفرادیت پسندی کو واضح کرتی ہے اور ان کے ہم فکر لوگوں کی بھی شناخت کرتی ہے کہ جن کا طریقۂ عمل خوارج کی طرح اسلام کی رواداری اور آسانی کو چھوڑ کر محض تشدد و تعسف پر قائم ہے، جب کہ اسلام ایک آسان اور رواداری کا مذہب ہے، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِنَّ الدِّیْنَ یُسْرٌ وَ لَنْ یُّشَادَ الدِّیْنَ اَحَدٌ اِلَّا غَلَبَہٗ فَسَدِّدُوْا وَ قَارِبُوْا۔))[3] ’’دین آسان ہے، جو شخص اس کے ساتھ زور آزمائی کرے گا اس پر یہ غالب آجائے گا، لہٰذا اعتدال اور میانہ روی اختیار کرو۔‘‘ دین سے ناواقفیت: خوارج کی ایک بڑی آفت یہ ہے کہ وہ کتاب و سنت سے ناواقف ہوتے ہیں،ان کی سوچ سمجھ آفت زدہ اور فکر و تدبر سے عاری ہوتی ہے، شرعی نصوص کو صحیح مقامات سے پھیر کر بے محل مقامات پر تطبیق دیتے ہیں، چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما انھیں اللہ کی ’’بدتر مخلوق‘‘ خیال کرتے تھے، آپ نے فرمایا: انھوں نے کفار کے بارے میں نازل ہونے والی آیات کو مومنوں پر منطبق کیا۔[4] آپ سے جب ’’حروریہ‘‘ کے بارے میں پوچھا جاتا تو فرماتے: یہ لوگ مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں، ان کی جان و مال حلال سمجھتے ہیں اور ان کی بیویوں سے دوران عدت نکاح کرتے ہیں، کوئی شادی شدہ عورت ان کے پاس آتی ہے تو وہ اس سے نکاح کو معیوب نہیں سمجھتے، میرے خیال میں ان سے زیادہ قتال کا مستحق کوئی نہیں ہے۔[5] اسلامی شریعت سے ان کی جہالت و نادانی کی اس سے بڑی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ انھوں نے ’’تحکیم‘‘ کو ایسا گناہ قرار دیا جو کفر کو مستلزم ہے، لہٰذا ان کے عقیدہ کے مطابق جو شخص ’’تحکیم‘‘ کا قائل ہوا اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اپنے اوپر کفرکا اعتراف کرے اور پھر اس سے توبہ کرے۔[6] علی رضی اللہ عنہ سے ان کا یہی مطالبہ تھا کہ پہلے |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |