Maktaba Wahhabi

753 - 1201
اب دونوں لشکر خطرناک لڑائی کی شکل میں ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوچکے تھے اور لڑائی پوری تیزی کے ساتھ سورج غروب ہونے تک جاری رہی، اگر درمیان میں رکی تو صرف نماز کے لیے جس میں ہر فریق اپنے لشکر گاہ میں جاکر نماز پڑھتا، میدان میں طرفین کے مقتولین کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں، علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کے ایک آدمی نے علی رضی اللہ عنہ سے جب وہ نماز سے واپس ہو رہے تھے پوچھا: اے امیر المومنین! آپ ہمارے اوران کے مقتولین کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہم میں اور ان میں جو بھی قتل کردیا گیا اور اس کی نیت اللہ کی رضا جوئی اورآخرت کی کامیابی تھی وہ جنت میں جائے گا۔[1] آج کے دن ہر ایک نے دوسرے پر حملہ کیا، لیکن کوئی کسی پر غالب نہ ہوا اور شام ہوجانے تک کسی کو میدان چھوڑ کر بھاگتے نہیں دیکھا گیا، شام کے وقت علی رضی اللہ عنہ میدان جنگ کی طرف نکلے، شام کے مقتولین پر نگاہ ڈالی اور اپنے رب سے دعا کرتے ہوئے فرمایا: اے اللہ مجھے اوران لوگوں کو بخش دے۔[2] 2۔ دوسرا دن: روایات میں ہے کہ جمعرات کے دن سیّدنا علی رضی اللہ عنہ غلس میں فجر کی نماز پڑھی اور حملہ کرنے کے لیے مکمل تیار ہوگئے، فوجی قیادت میں معمولی تبدیلی بھی کی، عبداللہ بن بدیل الخزاعی رضی اللہ عنہ کو میسرہ سے میمنہ پر اور اشعث بن قیس الکندی رضی اللہ عنہ کو میمنہ سے مسیرہ پر مقرر کیا۔[3] دونوں طرف کی افواج ایک دوسرے کی طرف آگے بڑھیں اور گزشتہ روز کی طرح آج زیادہ سخت انداز میں ایک دوسرے میں گتھم گتھا ہوگئیں، اہل عراق آگے بڑھنے لگے اوراہل شام پر اپنی برتری کا مظاہرہ کیا، عبداللہ بن بدیل رضی اللہ عنہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے میسرہ کو جس پر حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ مقرر تھے توڑنے میں کامیاب ہوگئے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے شہباء نامی دستہ کی طرف آگے بڑھے، بے مثال بہادری اور جوش کا مظاہرہ کیا، عراق کی پوری فوج اس جزئی پیش رفت کے ساتھ لگ گئی اور معرکہ اس قدر دل دہلا دینے والا تھا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ میدان قتال چھوڑنے کا سوچنے لگے، لیکن آپ نے صبر کیا ۔ پھر آپ نے اپنے ’’شہبائ‘‘ نامی دستہ کو جوش دلایا اور وہ عبداللہ بن بدیل رضی اللہ عنہ کو شہید کردینے میں کامیاب ہوگیا، اب ان کی جگہ میمنہ کی قیادت اشتر کرنے لگا، ادھر اہل شام نے خود کو اور مضبوط کرلیا، یہاں تک کہ ان میں سے بعض نے موت پر بیعت کرلی اور نہایت سختی و عزیمت کے ساتھ دوبارہ زبردست حملہ کیا، اس حملہ میں ان کے بعض نمایاں افراد قتل ہوگئے مثلاً ذو الکلاع الحمیری، حوشب اور عبیداللہ بن خطاب رضی اللہ عنہ کو قتل کردیا اور جنگ کا پانسا پلٹ گیا، کامیابی شامی فوج کے جھولی میں جاگری، شامی فوج نے پیش رفتی کا مظاہرہ کیا اور عراقی فوج پیچھے ہٹنے لگی، اہل عراق کی لاشیں گرنے لگیں، لوگ زخمی ہونے لگے، علی رضی اللہ عنہ نے جب اپنی فوج کو پیچھے ہٹتا دیکھا تو انھیں اواز
Flag Counter