Maktaba Wahhabi

754 - 1201
دینے لگے، جوش دلایا اور سخت لڑائی لڑی، شامی قلب تک جس پر ربیعہ مامور تھے، گھس گئے، شامی فوج کی غیرت جاگ اٹھی اور انھوں نے اپنے امیر خالد بن معتمر سے مرمٹنے کے لیے بیعت کرلی، یہ سب منجھے ہوئے جنگ جو تھے۔[1] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی جماعت میں شامل عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی عمر چورانوے (94) سال سے متجاوز ہوچکی تھی، لیکن آپ پورے جوش و خروش سے لڑ رہے تھے، لوگوں کو بھی جوش دلاتے، ان کی ہمتیں بڑھاتے، لیکن اس سب کے باوجود فریق مخالف کی مذمت میں مبالغہ کرنے سے کوسوں دور تھے، اپنے پہلو میں ایک آدمی کو کہتے ہوئے سنا کہ اہل شام نے کفر کیا ہے، عمار رضی اللہ عنہ نے اسے اس بات سے منع کیا اور کہا: نہیں، انھوں نے ہم سے بغاوت کی ہے، ان کی بغاوت کی وجہ سے ہم ان سے لڑ رہے ہیں، ہمارا اور ان کا معبود ایک ہی ہے، نبی ایک ہے اور ہمارا قبلہ بھی ایک ہی ہے۔[2] جب عمار رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ہماری جماعت کے لوگ پیچھے ہو رہے ہیں اور مدمقابل آگے بڑھ رہا ہے توآپ اپنی جماعت والوں کو جوش دلانے لگے اور کہنے لگے کہ: تم حق پر ہو، شامیوں کی شدید ضربیں تمھیں دھوکا میں نہ ڈال دیں، جو حور عین کے جلو میں بیٹھنے کا خواہاں ہو وہ ثواب الٰہی کی نیت سے دونوں صفوں کے درمیان آگے بڑھے، میں ایسی صف دیکھ رہا ہوں، جو تمھیں ایسی کاری ضرب لگا رہی ہے کہ جس سے کمزور ایمان والے شک میں پڑ جائیں۔ اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر ہمارا دشمن ہمیں مارتے کاٹتے ہجر تک پہنچ جائے تو بھی ہمیں یقین ہوگا کہ ہم حق پر اور وہ باطل پر ہیں ہمارے مصلحین حق پر ہیں اور وہ باطل پر۔[3] پھر آپ آگے بڑھے، آپ کے کانپتے ہوئے ہاتھوں میں ایک ہتھیار تھا، علم بردار جنگ ہاشم بن عقبہ بن ابی وقاص پر دباؤ ڈالا، انھیں آگے بڑھنے پر ابھارا، ان کو اوران کے ساتھیوں کو اللہ کی جنت کی نعمتوں کا لالچ دلایا، کہا: جنت بالکل قریب ہے، حور عین بن سنور کر تیار ہیں، جو ان کے جلو میں بیٹھنا چاہے وہ ثواب الٰہی کی نیت سے دونوں صفوں کے درمیان گھس جائے۔ یقینا یہ بڑا حیرت انگیز منظر رہا ہوگا، عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ ایک جلیل القدر مہاجر اور بدری صحابی، چورانوے (94) سال کی عمر سے آگے بڑھ رہے ہیں، لیکن جوش و خروش، عزم و ہمت، اعلیٰ روحانیت اور پختہ یقین کا یہ بے نظیر منظر، آپ کی یہ تقریر عراقی فوج کے جذبات اوران کی روحانی قوت کو بھڑکانے میں بڑی موثر ثابت ہوئی، ان کی سختی، خون ریزی اور جنگ کی روانی دو چند ہوگئی، اور جنگ کی متوقع کامیابی کو اپنے مفاد میں لانے میں کامیاب ہوگئے، ہاشم بن عقبہ بن ابی وقاص ان اشعار کے ترانے گاتے ہوئے آگے بڑھے: اَعْوَرُ یَبْغِیْ اَہْلَہٗ مَحَلَّا قَدْ عَالَجَ الْحَیَاۃَحَتَّی مَلَّا لَابُدَّ أَنْ یُّفِلَّ أَوْ یُفَلَّا[4] ’’یک چشم اپنی جگہ چاہتا ہے، زندگی سلجھاتے سلجھاتے وہ تھک چکا، اب اس کا گرنا یا گرایا جانا ضروری ہے۔‘‘
Flag Counter