علی رضی اللہ عنہ کا یہ نظریہ غلط نہ تھا، کیونکہ پوری امت مسلمہ اس بات پر متفق ہے کہ اگر حد قصاص کا فوری نفاذ فتنہ و شرانگیزی اور اسلامی وحدت میں انتشار کا سبب بن رہا ہو تو امام کے لیے قصاص کو مؤخر کردینا جائز ہے۔ [1] رہا یہ شوشہ کہ اگر آپ ان سے قصاص لینا چاہتے تھے تو پھر یہ لوگ کیسے آپ کے لشکر میں موجود رہے؟ اور کیسے آپ نے انھیں قبول کیا؟ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ اس کا جواب یوں دیتے ہیں: ’’سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والے جو خوارج اور ظالم لوگ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں رہے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس میں کوئی نامزد قاتل نہ تھا جس کی گرفت کی جاتی، یاایسے لوگ تھے جنھیں اپنے قبیلہ کی حمایت حاصل تھی،یا ایسے تھے جن کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کے لیے کوئی دلیل نہ تھی، یا پھر ایسے تھے جن کے دلوں میں نفاق تھا اور اسے مکمل طور سے ظاہر کرنے کی جرأت نہیں کرپارہے تھے۔‘‘[2] بہرحال ان کے سلسلہ میں آپ کا موقف نہایت محتاط تھا، آپ ان کے عمل و کردار سے برأت ظاہر کررہے تھے، ان سے چھٹکارا چاہتے تھے اور چھٹکارا ہی نہیں بلکہ اگر موقع ہاتھ آتا تو بلاشبہ قصاص لینا چاہتے تھے، یہ بات آپ کے دو نظریات میں صاف طور سے نظر آرہی ہے۔ ٭ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے متعلق آپ کاموقف۔ ٭ ایسے لوگوں کی خدمت لینے سے پرہیز۔ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے متعلق آپ کاموقف: سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت پر علی رضی اللہ عنہ نے سخت غم وغصہ کا اظہار کیا، ان کے خون سے اپنی برأت ظاہر کی، اپنے خطبات اور دیگر مجالس میں قسمیں کھا کھا کر کہا کہ میں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل نہیں کیا، نہ کسی کو اس کا حکم دیا، نہ کسی کو شہ دی اور نہ ہی اس واقعہ سے راضی ہوں، یہ بات اتنی اسناد سے ثابت ہے جو قطعیت کا فائدہ دیتی ہیں۔[3] یہ حقیقت ان رافضی مفروضوں کے خلاف ہے جن میں علی رضی اللہ عنہ کو قتل عثمان رضی اللہ عنہ پر مطمئن دکھایا گیا ہے۔[4] شہادت عثمان سے متعلق روایات کو نقل کرنے کے بعد امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ بدعتیوں کا یہ دعویٰ کہ علی رضی اللہ عنہ نے قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کی مدد کی تھی، یکسر جھوٹ اور بہتان ہے، متواتر روایات اس کے بالکل خلاف ہیں۔ [5] امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’یہ سب علی رضی اللہ عنہ پر جھوٹ اور افترا پردازی ہے، آپ ہرگز ہرگز دمِ عثمان رضی اللہ عنہ میں شریک نہ ہوئے، نہ اس کا حکم دیا اور نہ اس سے خوش ہوئے، آپ جو کہ ایک سچے اور نیک انسان ہیں، خود ہی اس کی صراحت کرتے ہیں۔[6] فرماتے ہیں: ((اَللّٰہُمَّ إِنِّيْ أَبْرَأُ إِلَیْکَ مِنْ دَمِ عُثْمَانَ‘))[7]اے اللہ! |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |