Maktaba Wahhabi

557 - 1201
تھے،[1] ان کے اور علی رضی اللہ عنہ کے درمیان بعض مراسلات بھی ہوئے۔[2] زیاد بن ابی سفیان نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد یہیں پناہ لے کر سکونت اختیار کرلی تھی۔[3] اصبہان بھی فارس کے اہم اور بڑے شہروں میں شمار ہوتا تھا۔[4] وہاں پر علی رضی اللہ عنہ کے مقرر کردہ گورنروں میں محمد بن سلیم کا نام بھی آتا ہے۔[5] لیکن یہاں کے شہرت یافتہ گورنر ’’عمر بن سلمہ‘‘ رضی اللہ عنہما تھے، جنھیں علی رضی اللہ عنہ ہی نے مقرر کیا تھا، انھوں نے اصبہان سے امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس غلہ جات اور دیگر اموال بھیجے تھے۔[6] علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں اسی فارسی علاقہ میں 39ھ میں دراہم کے ٹکسال تھے۔ آج بھی عراقی میوزیم میں اس کے نمونے موجود ہیں اور ان پر سکہ ڈھالنے کی تاریخ کے ساتھ عربی عبارتیں کندہ کی ہوئی ہیں۔[7] 2۔ خراسان: خراسان، فارس کی ایک وسیع ترین ریاست تھی، خلفائے راشدین کے عہد میں بالواسطہ یا بلاواسطہ بصرہ کی مرکزی ریاست سے مربوط تھی، علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں اس علاقہ کے کئی واقعات، متعدد گورنروں اور شہروں کے امراء کے نام ملتے ہیں۔ چنانچہ عبدالرحمن بن ابزیٰ رضی اللہ عنہ ، علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے یہاں کے پہلے گورنر مقرر ہوئے۔[8] اسی طرح جعدہ بن ہبیرہ بن ابی وہب بھی یہاں کے گورنر بنائے گئے۔[9] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے 37ھ میں صفین سے واپسی کے بعد انھیں خراسان کا گورنر بناکر بھیجا، اس وقت اہل خراسان مرتد ہوچکے تھے، لہٰذا علی رضی اللہ عنہ کی خواہش تھی کہ ان کے خلاف تادیبی کارروائی کریں اور ریاستی نظم و نسق کو دوبارہ برقرار رکھیں۔[10] لیکن بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس مقصد میں کامیاب نہ ہوئے اور اپنے ایک اہم فوجی افسر کو وہاں روانہ کردیا جس نے وہا ں پہنچ کر اہل خراسان سے مصالحت کی اور دوبارہ وہاں کے حالات کو کنٹرول کیا۔ [11] اس طرح سجستان بھی خراسان سے متصل ایک چھوٹی ریاست تھی اوریہ دونوں ریاستیں کافی حد تک مرکزی ریاست بصرہ کے گورنر سے مربوط ہوتی تھیں اور دونوں کے درمیان حکومتی تعلقات باقی رہتے تھے۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں سجستان کے گورنروں میں عبدالرحمن بن جزء الطائی [12]کا نام ملتا ہے۔ آپ نے جنگ جمل کے بعد انھیں سجستان بھیجا، لیکن عرب کے انقلابی لٹیروں نے آپ کو قتل کردیا اور پوری ریاست میں
Flag Counter