کہ علماء نے ان لوگوں سے اس طرح استفادہ نہیں کیا جس طرح ان کے پیشتر تینوں ائمہ (علی زین العابدین، محمد الباقر، جعفر الصادق) کے ذریعہ سے استفادہ کیا۔[1] 5۔عقیدۂ عصمت ائمہ پر ایک عمومی تنقید: ائمہ کے حق میں عصمت کا دعویٰ انھیں نبوت میں شریک کرنے کے برابر ہے کیونکہ ہر بات میں معصوم کا اتباع واجب ہے، کسی چیز میں اس کی مخالفت جائز نہیں، حالانکہ یہ خصوصیت صرف انبیاء کرام کی ہے، اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ انبیائے کرام کی طرف جس چیز کا نزول ہوا ہے ہم اس پر ایمان لائیں فرمایا: قُولُوا آمَنَّا بِاللَّـهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ﴿١٣٦﴾ (البقرۃ: 136) ’’کہہ دو ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر جو ہماری طرف اتارا گیا اور جو ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اس کی اولاد کی طرف اتارا گیا اور جو موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا گیا اور جو تمام نبیوں کو ان کے رب کی طرف سے دیا گیا، ہم ان میں سے کسی ایک کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اسی کے فرماں بردار ہیں۔‘‘ چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ مذکورہ آیت میں اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام جو کچھ دیے گئے ہم اس پر برملا ایمان لانے کا اعلان کریں، لہٰذا بالکلیہ طور سے ہمیں انھیں پر ایمان لانا ہے اور ان کی باتوں کو تسلیم کرنا ہے، یہ تمام مسلمانوں کا متفق علیہ عقیدہ ہے، اب اگر کوئی شخص ان انبیاء کے علاوہ کسی ا ور فرد کو معصوم ٹھہراتا ہے بایں طور کہ اس کی ہر بات پر آمنا و صدقنا کہا جائے، تو اس شخص نے گویا اس معصوم فرد کو مقام نبوت عطا کردیا، اگرچہ وہ لفظاً اس کا اعتراف نہ کرے اور یہ ایسا عقیدہ ہے جو اسلام کے یکسر خلاف اور قرآن و سنت اور اجماع سلف سے متصادم ہے۔چنانچہ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ (النسائ:59) ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو اور ان کا بھی جو تم میں سے حکم دینے والے ہیں، پھر اگر تم کسی چیز میں جھگڑ پڑو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ۔‘‘ مذکورہ آیت میں اختلاف کے وقت اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ حکم نہیں دیا کہ ہم اپنے معاملہ کو اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ کسی اور کے پاس لے جائیں، پس اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ انسانوں کے لیے کوئی اور معصوم اور مرجع ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف لے جانے کا حکم دیتا، لہٰذا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |