Maktaba Wahhabi

975 - 1201
معصوم نہیں۔[1] اور ایک جگہ فرمایا: وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَـٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَـٰئِكَ رَفِيقًا ﴿٦٩﴾ (النسائ: 69) ’’اور جو اللہ اور رسول کی فرماں برداری کرے تو یہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، نبیوں اور صدیقوں اور شہداء اور صالحین میں سے اور یہ لوگ اچھے ساتھی ہیں۔‘‘ اور فرمایا: وَمَن يَعْصِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ﴿٢٣﴾ (الجن: 23) ’’اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا تو یقینا اسی کے لیے جہنم کی آگ ہے، ہمیشہ اس میں رہنے والے ہیں ہمیشہ۔‘‘ پس قرآن صاف طور سے گویا ہے کہ جس نے رسول کی اطاعت کی وہ سعادت مندوں میں سے ہے، اس میں یہ شرط نہیں ہے کہ رسول کی اطاعت کے ساتھ کسی دوسرے معصوم کی اطاعت بھی ضروری ہے، اسی طرح یہ بھی معلوم ہوا کہ جس نے رسول کی نافرمانی کی وہ وعید کا مستحق ہوا اگرچہ اس نے اپنے گمان کے مطابق کسی کو معصوم سمجھ کر اس کی اطاعت ہی کیوں نہ کی ہو، یہاں ایک قابل غور پہلو یہ بھی ہے کہ دنیا کے تمام علمائے اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ہر شخص کی بات مانی بھی جا سکتی ہے اور چھوڑی بھی جاسکتی ہے، جب کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات کی تصدیق واجب اور آپ کے تمام تر مامورات و منہیات کی پابندی لازم ہے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا ضروری ہے، محض اس وجہ سے کہ صرف آپ ہی کی ذات معصوم ہے، جو کبھی اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہتے، آپ کی بات وحی الٰہیہ ہوتی ہے۔[2] قرآن کی طرح سنت مطہرہ سے بھی عدم عصمت ائمہ پر دلائل ثابت ہیں، لیکن کیا کیا جائے کہ اس فکر کے حاملین صرف اپنے ائمہ کے اقوال پر اعتماد کرتے ہیں، تاہم ان کے اس فکر کی تردید و تنقید خود ان کی مستند کتاب نہج البلاغۃ کے حوالہ سے ان کے نزدیک ثابت شدہ علی رضی اللہ عنہ کے اقوال سے ہوتی ہے، جس سے عصمت ائمہ کے دعویٰ کی اساس ہی ڈھے جاتی ہے، چنانچہ مؤلف نہج البلاغہ کے بقول امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:یہ گمان نہ کرو کہ اگر کوئی حق بات مجھ سے کہی جائے تو اس کا قبول کرنا میرے لیے گراں گزرتا ہے اور نہ ہی کبر و غرور کا میں متلاشی ہوں جس شخص پر حق و عدل کی بات پیش کی جائے وہ اس پر گراں گزرے تو حق و عدل پر عمل کرنا اس پر اس سے کہیں زیادہ گراں گزرے گا لہٰذا حق بات کہنے سے یا مبنی بر عدل مشورہ دینے سے نہ رکو، کیونکہ میں غلطی کرنے سے خود کو بالاتر نہیں سمجھتا اور میں اس سے اپنے عمل کو مبرّا نہیں جانتا۔[3]
Flag Counter