(2) گورنروں کی تقرری امیر المومنین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت خلافت ہوئی، اس وقت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی وجہ سے ملک کے مختلف علاقوں میں حالات نہایت کشیدہ تھے، ان ناگفتہ بہ حالات میں آپ کی بیعت ہوئی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلامی سلطنت امن واستقرار اور دیگر اصلاحی سرگرمیوں سے محروم رہی، مدینہ میں یہ کشیدگی اور مشکلات بالکل واضح طور سے دیکھی گئیں، ملک کے مختلف علاقو ں میں تمام تر ملکی معاملات غیر یقینی حالت سے گزرنے لگے، ایسے ناز ک موقع پر علی رضی اللہ عنہ کے مشیرکاروں اور بہی خواہوں نے مستقبل کے خطرات کو محسوس کیا، اور علی رضی اللہ عنہ کو آغاز خلافت ہی میں چند اقدامات کرنے کی نصیحت کی، خاص طور سے گورنروں کی تقرری سے متعلق آپ کو مشورے دیے۔[1] سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گورنروں اور اپنے قرابت داروں کو اہم مناصب سوپنے سے متعلق علی رضی اللہ عنہ کا موقف 1۔ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے گورنروں کے بارے میں علی رضی اللہ عنہ کا موقف: امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ یہ بات اچھی طر ح محسوس کرتے تھے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف فتنہ کا بنیادی سبب یہ ہے کہ عوام کی اکثریت ان کے مقرر کردہ گورنروں سے نالاں ہے اور ان کی ناراضی کی اصل وجہ عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے گورنروں کے خلاف فتنہ پرداز لیڈروں کا پروپیگنڈہ ہے، حالانکہ کوئی گورنر اپنے منصب کے لیے نااہل نہ تھا اور نہ ہی ظالم تھا، لیکن عصر حاضر کے بہت سے قلم کار ومصنّفین جب گورنران کی تقرری کے بارے میں علی رضی اللہ عنہ کی سیاست پر گفتگو کرتے ہیں تو اپنی بات کا آغاز اس طرح کرتے ہیں: ’’منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد علی رضی اللہ عنہ ایک لمحہ کے لیے عثمان رضی اللہ عنہ کے گورنروں کو ان کے مناصب پر نہیں دیکھنا چاہتے تھے، آپ کی دین پسندی اور امانت داری انھیں قبول کرنے کو قطعاً تیار نہ تھی۔‘‘ [2] غور کرنے کی بات ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے گورنروں کے خلاف یہ کتنی گھناؤنی اور بدترین تہمت ہے۔ میں نے اپنی کتاب ’’تیسیرالکریم المنان فی سیرۃ عثمان بن عفان‘‘ میں اس تہمت کو جڑ سے اکھاڑ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |