Maktaba Wahhabi

113 - 1201
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک قرآن مجید سے مسائل مستنبط کرنے کے اصول و مبادی امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کو قرآن اور علوم قرآن کا گہرا علم تھا اور آپ کا یہ عقیدہ تھا کہ قرآن میں ضمناً یا صراحتاً تمام تر شرعی احکامات موجود ہیں، اسی لیے اکثر کہا کرتے تھے: ’’اللہ تعالیٰ کسی چیزکو بھولنے والا نہیں ہے‘‘[1]اور شرعی حکم بتاتے ہوئے عموماً قرآن سے استدلال کرتے اور آیت کریمہ پڑھ کر سناتے، چنانچہ مسائل کے استنباط کے لیے آپ نے جو معیار مقرر کیا تھا وہ یہ تھا: 1۔ قرآن کے ظاہری معنی پر عمل کرنا: ٭ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کبھی کبھی قرآن کے ظاہری معنی پر عمل کرنے کا التزام کرتے، بشرطیکہ آپ کو کوئی ایسا قرینہ نہ ملتا ہو جو ظاہری معنی پر عمل کرنے سے مانع ہو، اسی لیے آپ ہر نماز کے لیے الگ الگ وضو کرتے اور اس آیت کی تلاوت کرتے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ (المائدۃ:6)[2] ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ اور اپنے ہاتھ کہنیوں تک دھو لو۔‘‘ آپ کے نزدیک اس التزام کی وجہ یہ تھی کہ اس آیت میں إِذَا قُمْتُمْ کا ظاہری مفہوم ہر نماز کے وقت وضو کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ ٭ آپ ایسے مسافر کے لیے روزہ رکھنا واجب سمجھتے تھے جس پر اقامت کی حالت میں روزہ فرض ہوچکا تھا پھر اس نے سفر شروع کردیا، چنانچہ آپ نے فرمایا: ’’جس شخص پر اقامت کی حالت میں روزہ فرض ہوگیا، پھر وہ سفر پر نکلے تو اس کے لیے روزہ رکھنا لازم ہے۔‘‘ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ (البقرۃ:185)[3] ’’تو تم میں سے جو اس مہینہ میں حاضر ہو وہ اس کا روزہ رکھے۔‘‘ ٭ آپ بالغ آدمی کی رضاعت کو سبب حرمت نہ سمجھتے تھے، کیوں کہ وہ رضاعت کی مقررہ مدت یعنی دو سال کے ضمن میں نہیں آتا، اس سلسلہ میں آپ آیت رضاعت کے ظاہری مفہوم کو ترجیح دیتے تھے وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ ۚ (البقرۃ:233)
Flag Counter