Maktaba Wahhabi

409 - 1201
کرلیں گے تو آپ کے ساتھی شکست کھاجائیں گے۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اللہ پر توکل و مکمل اعتماد اور تمھارے عقیدہ کو جھٹلاتے ہوئے ضرور جنگ پر جاؤں گا، چنانچہ آپ نے سفر کیا اور اللہ نے اس پر برکت عطا فرمائی اور بیشتر خوارج قتل کیے گئے۔[1] ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب آپ نہروان کی جنگ سے فارغ ہوئے تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا کہ اگر ہم نجومی کی ہدایت پر عمل کرتے اور اس وقت جنگ کے لیے نکلتے جب نجومی نے نکلنے کا مشورہ دیا تھا تو جاہل لوگ کہتے کہ نجومی کے بتائے ہوئے وقت پر جنگ کے لیے سفر کیا اس لیے کامیاب ہوگئے۔[2] غور کیجیے کہ علی رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کے عقیدہ کی سلامتی اور درستگی کے کتنے حریص تھے اور انھیں اس نجومی کے فاسد عقیدہ سے کتنا دور رکھنا چاہتے تھے، چنانچہ باوجود اس کے کہ آپ کا اصل نشانہ خوارج سے جنگ تھی اور جنگ کا نتیجہ دیکھنے کے لیے آپ مشغول و فکر مند رہے، لیکن سفر کے آغاز میں نجومی نے آپ سے جو بات کہی تھی آپ اسے نہیں بھولے اور خوارج سے جنگ کرنے پھر ان پر فتح پانے کے بعد نہایت مناسب وقت میں نجومی کے اس فاسد عقیدہ کی تردید کی۔[3] ز:… سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی ذات میں مبالغہ کرنے اور آپ کو الوہیت کا درجہ دینے والوں کو آپ نے نذر آتش کردیا: عبداللہ بن شریک العامری اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: علی رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی گئی کہ یہاں مسجد کے دروازہ پر کچھ لوگوں کی ایک جماعت ہے جو آپ کو اپنا رب مانتی ہے۔ آپ نے ان لوگوں کو بلوایا اورکہا: تمھارا ستیاناس ہو، تم لوگ کیا کہہ رہے ہو؟ انھوں نے جواب دیا: آپ ہمارے رب، خالق اور رازق ہیں۔ آپ نے فرمایا: تمھارا برا ہو؟ سنو! میں بھی تمھاری طرح ایک انسان ہوں، تمھاری طرح کھاتا پیتا ہوں، اگر میں نے اللہ کی اطاعت کی تو وہ مجھے ان شاء اللہ ثواب سے نوازے گا اور اگر میں نے اس کی نافرمانی کی تو مجھے ڈر ہے کہ وہ عذاب دے گا۔ اے لوگو! تم اللہ سے ڈرو اوراپنی بات سے باز آجاؤ، لیکن انھوں نے آپ کی ایک نہ سنی اور دوسرے دن صبح کو آپ کے پاس آئے ، قنبر بھی آئے اور کہنے لگے: میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں، یہ لوگ آپ کے پاس سے واپس گئے، اور وہی بات کہہ رہے تھے جو ان کا پہلے عقیدہ تھا، آپ نے فرمایا: انھیں بلاؤ، لیکن انھوں نے پھروہی جواب دیا، چنانچہ جب تیسرا دن ہوا تو آپ نے فرمایا: اگر تم اب بھی اپنے عقیدہ سے باز نہیں آتے تو تمھیں بہت بری موت ماروں گا۔ لیکن انھوں نے آپ کی بات ماننے سے انکار کردیا، پھر آپ نے اپنی رہائش گاہ اور مسجد کے درمیان ایک گڑھا کھدوایا، اس میں آگ جلائی اور کہا: اگر تم لوگ اپنے عقیدہ سے باز آجاؤ تو ٹھیک ورنہ تمھیں اس میں ڈال دوں گا۔ پھر بھی انھوں نے آپ کی بات ماننے سے انکار کردیا، چنانچہ آپ نے انھیں اس آگ میں ڈلوا دیا اور جب سب جل کر خاکستر ہوگئے تو آپ نے یہ شعر پڑھا:
Flag Counter