Maktaba Wahhabi

410 - 1201
إِنِّیْ إِذَا رَأَیْتُ أَمْرًا مُنْکَرًا أَوْقَدْتُ نَارِیْ وَ دَعَوْتُ قُنْبَرًا[1] ’’جب میں نے یہ منکر عمل دیکھا تو آگ جلائی اور قنبر کو بلایا اور ان بدعقیدہ لوگوں کو اس میں ڈلوا دیا۔‘‘ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں عکرمہ کی روایت سے اس واقعہ کو نقل کیا ہے اور اس میں ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کے پاس ان زندیقوں کو گرفتار کرکے لایا گیا اور آپ نے انھیں آگ میں جلا دیا۔ جب یہ خبر ابن عباس رضی اللہ عنہما کو ملی تو آپ نے فرمایا: اگر علی کی جگہ میں ہوتا تو انھیں آگ میں نہ جلاتا، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل سے منع فرمایا ہے۔ آپ کا ارشاد ہے: ((لَا تُعَذِّبُوْا بِعَذَابِ اللّٰہِ۔))… ’’تم انھیں وہ عذاب نہ دو جو اللہ کے ساتھ مخصوص ہے۔‘‘ میں انھیں قتل کرتا، اس لیے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((مَنْ بَدَّلَ دِیْنَہٗ فَاقْتُلُوْہٗ۔))[2] ’’جو مرتد ہوجائے اسے قتل کردو۔‘‘ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ثابت ہے کہ آپ نے اپنے بارے میں الوہیت کا عقیدہ رکھنے والے بیشتر امامیوں کو آگ میں جلا دیا تھا۔‘‘ [3] سبائیوں کو نذرآتش کرنے کے بارے میں ابن عباس رضی اللہ عنہما ، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی رائے سے متفق نہ تھے، جیسا کہ آپ نے فرمایا: اگر میں ہوتا تو انھیں آگ میں نہ جلاتا، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے: ((لَا تُعَذِّبُوْا بِعَذَابِ اللّٰہِ۔))… ’’تم انھیں وہ عذاب نہ دو جو اللہ کے ساتھ مخصوص ہے۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((مَنْ بَدَّلَ دِیْنَہٗ فَاقْتُلُوْہٗ۔))[4]… ’’جو مرتد ہوجائے اسے قتل کردو۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ممکن ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست سنی ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ کسی صحابی کے واسطہ سے آپ کو اس حدیث کا علم ہوا ہو۔ ابوداؤد کی روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ جب علی رضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بات سنی تو فرمایا: ((وَیْحَ اُمِّ ابْنَ عَبَّاسٍ۔)) [5] … ’’اللہ ابن عباس کی ماں پر رحم فرمائے۔‘‘ گویا سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اعتراض کو پسند نہیں کیا اور حدیث کا مطلب یہ سمجھا کہ نہی تنزیہی ہے۔[6]
Flag Counter