ایک تیسرے مولف خالد البیطار اپنی کتاب ’’علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ‘‘ میں میراث نبوی سے متعلق سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے موقف اور خلافت ابوبکر سے متعلق علی رضی اللہ عنہ کے موقف کو واضح کرنے میں صحیح منہج سے بہک گئے ہیں۔ یہ ایک طویل سلسلہ ہے جس کی چند مثالیں یہاں پیش کی گئی ہیں۔ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ ’’علی رضی اللہ عنہ جس طرح عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت سے پہلے اس سے دور رکھے گئے تھے اسی طرح ان کی وفات کے بعدبھی اس منصب سے دور کردیے گئے۔ صحابہ بنوہاشم کے خلاف متعصبانہ جذبہ کی وجہ سے حصول خلافت یا دنیا طلبی کے لیے آپس میں سازشیں کرتے تھے، لیکن علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خود کو چھوڑ کر دوسرے کو خلافت دیے جانے والے ظلم کو ناپسند کرتے رہے، آپ کا خیال تھا کہ اپنے پیشرو خلفاء سے زیادہ خلافت کے مستحق آپ ہی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی خلافت کے لیے راہ ہموار کی تھی، کبھی امیر اور کبھی اپنا نائب بنا کر لوگوں کی نگاہوں میں آپ کی عظمت و محبت کوبڑھایا تھا۔ امام (علی رضی اللہ عنہ ) اور صحابہ کے درمیان کوئی گہرا تعلق نہ تھا، آپ نے منصب خلافت کے لیے شیخین (ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ) کی دست درازی کو درگزر کردیا اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد ابوبکر صدیق کے ہاتھ پر بیعت خلافت کرلی۔‘‘[1] مذکورہ مؤلفین کی یہ تحریریں یا وہ گوئیاں ہیں، جھوٹ، بہتان اور من گھڑت افتراپردازیاں ہیں، حق و عدل اور انصاف کے یکسر خلاف ہیں،صحیح تاریخ انھیں ماننے سے انکار کرتی ہے، حتی کہ خود ان مؤلفین کے حمایت کنندہ امام (علی رضی اللہ عنہ ) کی صراحت بیانی ان کی تردید کرتی ہے، جیسا کہ پچھلے صفحات میں اس کا تفصیلی جائزہ لیاجاچکا ہے اور پھر یہ کہنا پڑتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ خلیفہ ہونے کے بعدبھی اپنے پیش رو خلفاء کی افضلیت کا اعتراف کرتے رہے اور اپنے منبر سے اعلان کرتے اور اگر کوئی شخص ان پر آپ کو فضیلت دیتا تو آپ اسے سخت سزا کی دھمکی دیتے، یہ بات صحیح اسناد سے ثابت ہے۔ آپ ان کے حمایتی و مددگار تھے، تعلقات میں اتنی پختگی تھی کہ ضعیف اور موضوع روایات میں غوطہ زنی کرنے والے مؤلفین کے شکوک و شبہات کی آندھیاں ان میں دراڑ نہیں پیدا کرسکتی تھیں۔[2] یہاں میں نے بطور مثال صرف چند مؤلفین کی تحریروں کوپیش کیا ہے سب کا احاطہ نہیں کیا ہے۔ دراصل یہ لوگ اس تاریک گڑھے میں اس وجہ سے لڑھک گئے کہ تاریخ نگاری میں اہل سنت و جماعت کے منہج سے انھیں واقفیت نہیں، صحیح و معتبر اور غلط و غیر معتبر مصادر میں تمیز نہیں، نیز صحیح اور ضعیف روایات میں تفریق نہیں اور انھوں نے موضوع و من گھڑت روایات پر اعتمادکرتے ہوئے واقعات و حوادث کا تجزیہ کیا ہے۔ 5۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا خطبۂ خلافت: منصب خلافت پر سرفراز ہونے کے بعد آپ نے سب سے پہلا خطبہ یہ دیا: اللہ تعالیٰ نے ایک کتاب ہدایت نازل کی، اس میں خیر اور شر کو واضح کیا، خیر کو لے لو اور شر کو چھوڑ دو، اللہ کے فرائض کو ادا کرو، وہ تمھیں جنت میں داخل کرے گا، بے شک اللہ تعالیٰ نے کچھ چیزوں کو حرام کیا ہے جو واضح ہیں، پس پردہ نہیں ہیں، مسلمانوں کی |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |