Maktaba Wahhabi

789 - 1201
عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی سیرت آپ کا نام عمرو بن عاص بن وائل السہمی اور کنیت ابومحمد اور ابوعبداللہ ہے۔ ابن اسحاق[1] اور زبیر بن بکار[2] اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ حبشہ میں نجاشی کے پاس اسلام لائے اور صفر 8ھ میں مدینہ ہجرت کی، جب کہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے کہ 8ھ میں فتح مکہ سے پہلے اسلام لائے اوریہ بھی کہا گیا ہے یہ حدیبیہ اور خیبر کے درمیانی عرصہ میں اسلام لائے۔[3] 1۔اسلام لانا: آئیے ہم عمرو بن عاص کے اسلام لانے کا واقعہ خودان کی زبانی سنتے ہیں، وہ اپنے اسلام لانے کا واقعہ اس طرح بیان کرتے ہیں۔ جب ہم غزوۂ احزاب سے واپس (مکہ) آئے تو میں نے قریش کے کچھ لوگوں کو بلایا، وہ بھی میری طرح سوچتے تھے اور میری بات مانتے تھے، میں نے ان سے کہا: اللہ کی قسم! تم لوگ باور کرلو کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بات تمام باتوں پر سربلند ہو کر رہے گی، میری یہ ایک رائے ہے معلوم نہیں تم اس کو کیسا سمجھتے ہو؟ انھوں نے پوچھا: کیا رائے ہے؟ میں نے کہا: میرا خیال ہے کہ ہم لوگ نجاشی کے پاس حبشہ جاکر مقیم ہوجائیں، کیونکہ نجاشی کے پاس رہنا محمد کے ماتحت ہو کر رہنے سے بہتر ہے اور اگر ہماری قوم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر غالب آگئی تو ہمارے ساتھ اس کا برتاؤ اچھا ہی ہوگا، سب نے کہا: یہ بڑی عمدہ رائے ہے۔ میں نے کہا: تو پھر ہم نجاشی کو ہدیہ دینے کے لیے کوئی عمدہ سامان اکٹھا کرلیں، اس وقت ’’چمڑا‘‘ ہمارے یہاں کی سب سے بہترین سوغات تھی، چنانچہ ہم سب نے چمڑا جمع کیا اور پھر اسے بطور سوغات لے کر نجاشی کے پاس پہنچے۔ اللہ کی قسم! ابھی ہم اس کے پاس ہی تھے کہ عمرو بن امیہ ضمری وہاں آئے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں جعفر اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں کچھ گفتگو کے لیے نجاشی کے پاس بھیجا تھا، بہرحال عمرو بن امیہ نجاشی کے پاس گئے اور پھر نکل گئے، میں اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا یہ عمرو بن امیہ ضمری ہے، اگر میں نجاشی کے پاس پہنچا اور عمرو بن امیہ ضمری کو اس سے مانگنے کے بعد پالیا تو اس کی گردن ماردوں گا، اگر میں یہ کر گزرا تو میرے خیال میں قریش کے نزدیک، میں ان کی طرف سے کافی ہوگیا، اس لیے کہ میں رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے قاصد کو قتل کردوں گا، چنانچہ ہم نجاشی کی خدمت میں حاضر ہوئے، میں نے حسب معمول سجدہ کیا، اس نے مجھے خوش آمدید کہا اور پوچھا: کیا اپنے ملک سے کوئی تحفہ لائے ہو؟ میں نے کہا: حضور بہت سا چمڑا تحفہ میں لایا ہوں، یہ کہہ کر میں نے چمڑا اس کو پیش کیا، اس نے بہت پسند کیا، پھر میں نے کہا: جہاں پناہ! آپ کے پاس ہمارے دشمن کا بھیجا ہوا ایک آدمی آیا ہے جسے ہم نے دربار سے نکلتے ہوئے دیکھا ہے، آپ اسے قتل کے لیے ہمارے حوالہ کردیں، اس نے ہمارے بہت سے اشراف و اکابر کو بہت تکلیفات پہنچائی ہیں۔
Flag Counter