میری بات سن کر نجاشی بہت غضب ناک ہوا اور اپنا ہاتھ کھینچ کر اس زور سے اپنی ناک پرمارا کہ میں سمجھا ٹوٹ گئی، (بادشاہ کا رد عمل دیکھ کر) میں اس قدر نادم ہوا کہ زمین میں سما جانا چاہتا تھا، پھر میں نے عر ض کیا: اے بادشاہ عالی جاہ! اگر میں یہ جانتا کہ میری بات ناگوار گزرے گی تو میں ہرگز منہ سے نہ نکالتا۔ بادشاہ نے کہا: تم ایک ایسے شخص کو قتل کرنے کے لیے مانگتے ہو جو اس ہستی کا قاصد ہے جس کے پاس ناموس اکبر آتا ہے، وہی ناموس اکبر جو موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا کرتا تھا، میں نے عرض کیاء عالی جاہ! کیا واقعی وہ ایسا ہے؟ بادشاہ نے کہا: عمرو! تم پر افسوس ہے، میری مانو تو اس کی پیروی اختیار کرلو، اللہ کی قسم! وہ حق پر ہے اور وہ اسی طرح تمام مخالفوں پر غالب آئے گا جس طرح موسیٰ علیہ السلام فرعون اور اس کے لشکر پر عالب آئے تھے، میں نے کہا: تو پھر آپ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف سے مجھ سے اسلام کی بیعت لے لیجئے، چنانچہ نجاشی نے ہاتھ بڑھایا اور میں نے اسلام کی بیعت کرلی۔ جب میں اپنے ساتھیوں کے پاس واپس گیا تو میرے خیالات میں یکسر انقلاب آچکا تھا، لیکن میں نے ان پر اس کا اظہار نہ کیا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر قبول اسلام کے لیے عازم مدینہ ہوا، راستہ میں خالد بن ولید مل گئے، وہ مکہ سے آرہے تھے، میں نے ان سے پوچھا: اے ابا سلیمان کہاں کا قصد ہے؟ خالد نے جواب دیا: اللہ کی قسم! راستہ واضح ہوگیا، یہ صاحب (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) یقینا نبی ہیں، اس لیے میں اسلام قبول کرنے جارہا ہوں، آخر ہم کب تک بھٹکتے رہیں گے، میں نے کہا:اللہ کے قسم! میں بھی اسی ارادہ سے جارہا ہوں۔ چنانچہ ہم دونوں رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس مدینہ پہنچے، پہلے خالد بن ولید آگے بڑھے، اسلام لائے اور بیعت کی، پھر میں قریب ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ سے بیعت کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں، لیکن شرط یہ ہے کہ پہلے میرے پچھلے گناہ معاف ہوجائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((یَا عَمَرُو! بَایِعْ فَإِنَّ الإِسْلَامَ یَجُبُّ مَا کَانَ قَبْلَہ وَإِنَّ الْہِجْرَۃَ تَجُبُّ مَا کَانَ قَبْلَہَا۔)) ’’عمرو ! بیعت کرلو، اسلام پچھلے گناہوں کو مٹا دیتا ہے، اور ہجرت بھی ماقبل کے گناہوں کو ختم کردیتی ہے۔‘‘ پھر میں نے بیعت کرلی اور مکہ واپس آگیا۔[1] ایک دوسری روایت میں ہے کہ انھوں نے کہا: جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو میرے دل میں ڈال دیا تو میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: آپ اپناہاتھ پھیلائیے تاکہ میں بیعت کروں، چنانچہ آپ نے اپنا ہاتھ پھیلایا، پھر میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مَا لَکَ یَا عَمْرٌو!‘‘ اے عمرو ! کیا بات ہوگئی؟ میں نے کہا: میں شرط لگانا چاہتا ہوں، آپ نے فرمایا: ((تَشْتَرِطُ بِمَاذَا؟‘)) کس چیز کی شرط لگاؤ گے، میں نے کہا: یہ کہ میرے گناہ بخش دیے جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |