فرمایا: اگر میری نماز میں ایسی صورت پیش آتی تو میں نماز کا اعادہ کرتا، پھر وہ آدمی لوٹ کر ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آیا، اورآپ کے جواب کی اطلاع دی، ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: انھوں نے سچ کہا۔ یا فرمایا: بہت ہی عمدہ جواب دیا۔شیخ فرماتے ہیں: گویا کہ علی رضی اللہ عنہ کے اس قول سے مراد یہ ہے کہ مشکوک فیہ کا اعادہ کرتا، اسی طرح رمی میں بھی مشکوک فیہ کا اعادہ کیا جائے گا۔[1] عبادات سے ملحق بعض احکام 1۔ ماکول اللحم جانور کو مرنے سے کچھ ہی پہلے ذبح کردینا: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک اگر جانور مرنے کے قریب ہو اور مرنے سے کچھ ہی پہلے اسے ذبح کردیا جائے تو اسے کھانا جائز ہے، البتہ ذبح سے پہلے اس کی زندگی کی علامت یہ ہے کہ جانور کے کسی عضو میں حرکت پائی جائے۔[2] آپ فرماتے ہیں: اگر ضرب شدہ یا اونچی جگہ سے گرا ہوا، یا کسی کے سینگ کا مارا ہوا، یا درندوں کا پھاڑ کھایا ہوا کوئی جانور اس حال میں ملے کہ اس کے ہاتھ یا پاؤں میں حرکت ہو تو اسے ذبح کرلو اور کھاؤ۔[3] اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّـهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ (المائدۃ:3) ’’تم پر مردار حرام کیا گیا ہے اور خون اور خنزیر کا گوشت اور وہ جس پر غیر اللہ کا نام پکارا جائے اور گلا گھٹنے والا جانور اور جسے چوٹ لگی ہو اور گرنے والا اور جسے سینگ لگا ہو اور جسے درندے نے کھایا ہو، مگر جو تم ذبح کر لو۔‘‘ إِلَّا مَا ذَکَّیْْتُمْ کہہ کر مذکورہ حرام جانوروں سے ان جانوروں کو مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے جو شرعی طور سے ذبح کرلیے جائیں لہٰذا ان کا کھانا حلال ہوگا۔[4] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |