ذمہ داری کو نبھایا۔ ‘‘[1] امیر بصرہ عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ اور عائشہ، زبیر، و طلحہ رضی اللہ عنہم کی فوج کے مابین اختلاف: امام طبری نے ابو مخنف سے یہ روایت نقل کی ہے کہ جب سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے لشکر نے عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کو گرفتار کیا تو ابان بن عثمان بن عفان کو عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس مشورہ لینے کے لیے بھیجا کہ ان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جائے، آپ رضی اللہ عنہا نے حکم دیا کہ اسے قتل کردو۔ ایک عورت بول پڑی کہ ام المومنین! میں عثمان کے بارے میں آپ کو اللہ کا حوالہ دیتی ہوں ان کے مقام صحابیت کا تو خیال کیجئے ؟ تب عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ابان کو واپس بلاؤ، چنانچہ وہ بلائے گئے آپ نے ان سے کہا کہ جاؤ اسے قید کردو قتل نہ کرو۔ ابان کہنے لگے: اگر میں جانتا کہ آپ مجھے اسی لیے بلارہی ہیں تو میں واپس نہ آتا۔ تب تک مجاشع بن مسعود نے مشورہ دیا کہ اسے خوب مارو، داڑ ھی کے بالوں کو نوچ لو۔ چنانچہ لوگوں نے انھیں خوب مارا اور سر، داڑھی، پلک، اور بھنوؤں تک کے بالوں کو نوچ لیا پھرانھیں قید کردیا۔[2] آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس روایت کا ایک روای ابو مخنف ہے جو کہ نہایت متعصب اور حسد سے بھرا ہوا رافضی راوی ہے اور کسی صحیح سند سے یہ روایت ثابت بھی نہیں کہ جس پر اعتماد کیا جاسکے۔ صحابہ کرام مثلہ جیسی قبیح حرکت کے مرتکب ہوں گے! ایسا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے؟ اس سلسلہ میں سیف کی سند سے مروی خبر حقیقت واقعہ بیان کرتی ہے، جس میں آیا ہے کہ ایسی نازیبا حرکت خود انھیں شرپسندوں کی تھی، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما نے اس کی سخت مذمت کی اور اسے ایک عظیم جرم گردانتے ہوئے جب عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس سے مطلع کیا توآپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: انھیں جانے دو، وہ جہاں چاہیں چلے جائیں۔[3] یہ روایت ابو مخنف کی مذکورہ روایت کے یکسر معارض ہے، اس میں کہیں یہ مذکور نہیں کہ آپ رضی اللہ عنہا نے انھیں قتل کرنے، قید کرنے یا چہرہ کے بال نوچنے کا حکم دیا ہو۔اسی روایت کو نویری اور ابن کثیر نے اختیار کیا ہے۔ [4] اور امام ذہبی کا خیال ہے کہ عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کے گھر میں گھسنے سے پہلے ہی مجاشع بن مسعود قتل کردیے گئے تھے،[5]پھریہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ انھوں نے مارنے اور مثلہ کرنے کا حکم دیا ہوگا۔ بفرض محال اگر مجاشع بن مسعود زندہ تھے، تو وہ ایسا حکم دینے کے کیوں کر مجاز تھے، جب کہ قیادت ان کے ہاتھ میں نہ تھی۔[6] امیر لمومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی کوفہ روانگی مدینہ میں اقامت گزیں صحابہ کرا م رضی اللہ عنہم مدینہ سے علی رضی اللہ عنہ کی منتقلی کی تائید میں نہ تھے۔ یہ بات اس وقت زیادہ ابھر کر سامنے آئی جب آپ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی رائے معلوم کرنے اور حالات کا جائزہ لینے کی خاطرشام |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |