جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔[1]آپ سوچتے تھے کہ اس وقت اسلامی ریاست کے دیگر بڑے بڑے شہر جن اسباب ووسائل کے مالک ہیں، مدینہ میں ترقی کے اب وہ بنیادی اجزاء واپس نہیں آسکتے۔ آپ نے کہا: ’’مالی استحکام اور افرادی قوت تو عراق میں ہے۔‘‘[2] جب ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو آپ کا یہ رجحان معلوم ہوا تو کہا: اے امیرالمومنین! کیا ہی اچھا تھا کہ آپ یہیں قیام کرتے، یہ ایک محفوظ پناہ گاہ اور ہجرت گاہ رسول ہے، یہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مدفن ومنبر اور اسلام کی جڑ ہے۔ اگر اہل عرب آپ کے تابع ہوجاتے ہیں تو آپ بھی اپنے پیشرؤں کی طرح رہیں گے اور اگر کوئی قوم آپ کے خلاف گروہ بندی کرتی ہے تو اسے اسی کے دشمن سے کچل سکیں گے اوراگر نکلنے ہی پر مجبور ہونا پڑے گا تو آپ نکلیں گے اور معذور سمجھے جائیں گے۔ چنانچہ امیرالمومنین رضی اللہ عنہ نے ابو ایوب رضی اللہ عنہ کا مشورہ مان لیا اور مدینہ میں اقامت کرنے کو ترجیح دیی اور گورنروں کو دیگر شہروں میں بھیج دیا۔ [3] لیکن بعد میں حالات نے پلٹا کھایا، بے شمار نئے نئے سیاسی مسائل پیدا ہوگئے اور آپ کو بہرحال مدینہ چھوڑنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ آپ نے کوفہ جانے کو ترجیح دی تاکہ شام سے قریب رہیں۔[4] جس وقت آپ مدینہ سے کوفہ جانے کی تیاری کررہے تھے، اسی دوران خبر ملی کہ عائشہ، طلحہ اورزبیر رضی اللہ عنہم بصرہ پہنچ چکے ہیں۔[5] آپ نے اہل مدینہ سے مدد کی درخواست کی اور انھیں جنگ میں چلنے کی دعوت دی۔ لیکن علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں مفسدین کی موجودگی اور ان کے ساتھ آپ کے نرم طرز عمل کو دیکھ کر مدینہ کے لوگ آگے پیچھے ہورہے تھے۔ وہ سوچ رہے تھے کہ فتنہ اب بھی اپنی حالت پر باقی ہے، اس لیے جب تک حالات واضح طور سے معمول پر نہ آجائیں انتظار کرنا ضروری ہے۔ انھیں کے الفاظ میں: ’’اللہ کی قسم! ہماری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ہم کیا کریں، یہ معاملہ ہمارے لیے سخت پیچیدہ ہے، ہم مدینہ میں اس وقت تک قیام کریں گے جب تک کہ حالات واضح نہ ہوجائیں۔‘‘ امام طبری روایت کرتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے شام کے لیے جو تیاری کر رکھی تھی اسی کے ساتھ نکل پڑے اور آپ کے ساتھ بصرہ اور کوفہ کے وہ لوگ بھی نکلے جو بہت متحرک تھے اور اس طرح کل تعداد تقریباً سات سو (700) تھی۔ [6] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی روانگی کے وقت بہت سارے اہل مدینہ کے دائیں بائیں ہونے اور آپ کی دعوت قبول نہ کرنے کے بہت سارے دلائل ہیں، مثلاً امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ نے اپنے کئی خطبات میں صحابہ کے تردد اور ان کی عدم مشارکت پر اپنی تکلیف کا اظہار کیا۔[7]اور یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد بہت سارے |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |